مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یوم عاشورا، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) کے نواسے اور حضرت علی (ع) و حضرت فاطمہ زہرا (س) کے فرزند حضرت امام حسین (ع) کی کربلا کے میدان میں شہادت کا دن ہے یہ دن رسول اکرم (ص) اور آئمہ اہلبیت (ع) کے حزن و ملال اور رنج و غم کا دن ہے۔ یوم عاشورا شمشیر پر خون کی فتح کا دن ہے یہ دن پیغمبر اسلام (ص) کے اہلبیت (ص) پر وارد ہونے والی مصیبتوں کی وجہ سے مصیبت ، حزن وملال اور رنج و غم کا دن ہے۔
اہلبیت (ع) کے چاہنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس دن حزن و ملال میں رہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ہوں اور گھر کے لئے کچھ نہ کمائیں بلکہ نوحہ و ماتم اور نالہ بکاء کرتے رہیں ،امام حسین (ع) کیلئے مجالس برپا کریں اور اس طرح ماتم و سینہ زنی کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پر ماتم کیا کرتے ہوں آج کے دن امام حسین (ع) کی زیارت عاشورا پڑھیں حضرت کے قاتلوں پر بہت زیادہ لعنت کریں اور ایک دوسرے کو امام حسین (ع) کی مصیبت پر ان الفاظ میں پرسہ دیں۔
اعْظَمَ اﷲُ ُجُورَنا بِمُصأبِنا بِالْحُسَیْنِں وَجَعَلَنا وَِیَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِینَ بِثارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الْاِمامِ الْمَھْدِیِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ
اللہ زیادہ کرے ہمارے اجر و ثواب کو اس پر جو کچھ ہم امام حسینـ کی سوگواری میں کرتے ہیں اور ہمیں تمہیں امام حسین (ع) کے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مہدی کے ہم رکاب ہو کر کہ جو آل محمد (ع)میں سے ہیں ۔ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسین(ع) کی مجلس اور واقعات شہادت کو پڑھیں خود روئیں اور دوسروں کو رلائیں ،روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (ع) کو حضرت خضر(ع) سے ملاقات کرنے اور ان سے تعلیم لینے کا حکم ہوا تو سب سے پہلی بات جس پر ان کے درمیان مذاکرہ مکالمہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضر ـنے حضرت موسیٰ کے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد (ص) پہ آنا تھے،اور ان دونوں بزرگواروں نے ان مصائب پر بہت گریہ و بکا کیا ۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ نہ رکھے کیونکہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار ان دو دنوں کو امام حسین (ع) کو قتل کرنے کے باعث بڑے بابرکت وحشمت تصور کرتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے ،انہوں نے بہت سی وضعی حدیثیں حضرت رسول ۖکی طرف منسوب کر کے یہ ظاہر کیا کہ ان دو دنوں کا روزہ رکھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے حالانکہ اہلبیت (ع) سے مروی کثیر حدیثوں میں ان دودنوں اور خاص کر یوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سن 61 ہجری قمری میں معاویہ کے بیٹے یزید نے پیغمبر اسلام (ص) کے نواسے حضرت امام حسین (ع) کو ان کے بہتر باوفا ساتھیوں کے ہمراہ کربلا کے میدان میں شہید کردیا تھا ۔
حمید ابن مسلم کا بیان ہے کہ عمر سعد نے لشکر حسینی پر سب سے پہلے تیر چلایا۔اس کے بعد تیروں کی بارش شروع ہوئی ۔حضرت امام حسین (ع) کے موعظہ کا اثر صرف جناب حرپرپڑا۔انھوں نے ابن سعد کے پاس جاکر آخری ارادہ معلوم کیا پھر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائي اور امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس کے بعد گھوڑے سے اتر کر امام حسین (ع) کی رکاب کو بوسہ دیا اما م حسین (ع) نے حرکومعافی دے کر جنت کی بشارت دی۔ (دمعہ ساکبہ ص۳۳۰ ) میں ہے کہ حرکے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔حمید ابن مسلم کا بیان ہے کہ عمر سعد نے لشکر حسینی پر سب سے پہلے تیر چلایا۔اس کے بعد تیروں کی بارش شروع ہوئی۔روضۃ الاحباب میں ہے کہ جناب حرکوقصور ابن کنانہ اور ارشاد میں ہے کہ ایوب مشرح نے ایک کوفی کی مدد سے شہید کیا ہے۔
علامہ عیسیٰ اربلی لکھتے ہیں کہ جناب حرکی شہادت کے بعد عمر سعد کے لشکر سے دونابکار مبارزطلب ہوئے جن کے نام نسیان وسالم تھے۔ان کے مقابلہ کے لیے امام حسین (ع) کے لشکر سے جناب حبیب ابن مظاہر اور یزید ابن حصین برآمد ہوئے اور ان دونوں کو چند حملوں میں فنا کے گھاٹ اتاردیا۔اس کے بعد معقل ابن یزید سامنے آیا۔جناب یزید ابن حصین اور بقول مجلسی بریر ابن خضیر ہمدانی نے اسے قتل کر ڈالا۔پھر مزاحم ابن حریث سامنے آیا۔اسے جناب نافع ابن ہلال نے قتل کر دیا۔ عمرابن سعد نے جب حسینی بہادروں کی شان شجاعت دیکھی تو سمجھ گیا کہ ان سے انفرادی مقابلہ ناممکن ہے۔لہٰذا اجتماعی حملہ کا پروگرام بنایااور اپنے چیف کمانڈر کو حکم دیا کہ کثیر تعداد میں کمان اندازوں کو لا کر یکبارگی تیربارانی کر دے۔چنانچہ اس نے تعمیل حکم کی اور بے شمار تیراندازوں کے ذریعہ سے تیر بارانی شروع کر دی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام حسین (ع) کا تقریباََ تمام لشکر مجروح ہوگیااورحضرت امام حسین (ع) کے ۳۲ سے لیکر۵۰ اصحاب اسی وقت شہید ہوگئے۔
جنگ مغلوبہ کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے بہادروں کو لے کرجن کی کل تعداد ۳۲ تھی۔میدان میں نکل آئے اور اس بے جگری سے لڑے کہ لشکر مخالف کے چھکے چھوٹ گئے جس طرف حملہ کرتے تھے صفیں صاف ہو جاتی تھیں اور اس حملہ میں بے شمار دشمن موت کے گھاٹ اتاردیئے۔ان بھوکے پیاسے بہادرشیروں نے عمر سعد لشکرمیں ایسی ہلچل مچادی،جس نے افسران تک کے ہاتھ پاؤں پھلا دیئے۔بالآخر لشکر کوفہ کے کمانڈر عروہ بن قیس نے عمر ابن سعد کو کہلا بھیجا کہ جلد لشکر اور خصوصاََ تیرانداز بھیجو۔کیونکہ ان تھوڑے سے علوی بہادروں نے ہماری درگت بنادی ہے۔ عمر ابن سعد نے فوراَ ۵۰۰کمان داروں کو حصین ابن نمیر کے ہمراہ عروة بن قیس کی کمک میں بھیج دیا۔ان روباہوں نے پہنچتے ہی تیر بارانی شروع کر دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام حسین (ع) کے کئی بہادر کام آگئے۔اور تقریباََ کل کے کل پیادہ ہوگئے۔اسی دوران عمر ابن سعد نے آوازدی آگ لاؤہم خیموں کو جلائیں گے۔یہ دیکھ کر امام حسین (ع) نے شمر کو پکارا کہ یہ کیا بے حیائی کی جارہی ہے۔اتنے میں شبث ابن اربعی آگیا اور اس نے اس حرکت ناشائستہ سے بازرکھا۔ مورخ ابن اثیرا ور علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ دوران جنگ میں نماز ظہر کا وقت آگیا تو ابوثمامہ صائدی یاصیداوی نے خدمت امام حسین (ع) میں عرض کی مولا اگرچہ ہم دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں،لیکن دل یہی چاہتا ہے کہ نمازظہر ادا کر لی جائے۔امام نے ابوثمامہ کو دعادی اور نماز کا تہیہ فرمایا۔تیر چونکہ مسلسل آرہے تھے اس لیے زہیر ابن قین اور سعیدابن عبداللہ امام حسین (ع) کے سامنے کھڑے ہو کر تیروں کو سینوں پر لینے لگے۔یہاں تک کہ امام حسین (ع) نے نماز تمام فرمالی۔مورخین لکھتے ہیں کہ تلوار اور نیزوں کے زخم کے علاوہ ۱۳ تیر سعید کے سینے میں پیوست ہو گئے۔ نماز تمام ہوئی اور جناب سعید بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
آپ کا تبصرہ