غزہ کے مسئلے پر اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کے خطاب کو 24 گھنٹے سے بھی کم عرصہ گزر چکا ہے لیکن بہت سے ذرائع ابلاغ نے ان کے بیانات کو بڑے پیمانے پر کوریج دی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ کے مسئلے پر اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس کل سعودی عرب کے دارالحکومت میں منعقد ہوا جس میں 10 سال بعد ایران کے صدر کی موجودگی نے ذرائع ابلاغ کی توجہ دلائی۔

بین الاقوامی سیاسی ماہرین کے مطابق ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی تقریر اجلاس کے دیگر مقررین کہ جنہوں نے صیہونی حکومت کی واضح مذمت نہیں کی، کے مقابلے میں بہت اہم تھی۔

غزہ کے مسئلے پر اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں جو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا، ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے حالیہ ہفتوں میں غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کو اخلاقیات، قانون اور انسانیت کے لئے تاریخی حد تک شرمناک قرار دیتے ہوئے ان جرائم میں امریکہ کے بنیادی کردار پر زور دینے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین اور غزہ کے مظلوم عوام کے بارے میں عرب اور اسلامی ممالک کی ذمہ داری کو یاد دلاتے ہوئے 10 فوری راہ حل اور تجاویز پیش کیں جو کہ درج ذیل ہیں:

 "غزہ کے لوگوں کا قتل عام بند کیا جائے"، "غزہ کے انسانی محاصرے کو مکمل طور پر اٹھایا جائے"، "اس علاقے سے صیہونی رجیم کا فوری فوجی انخلاء اور برطرفی"۔

 اسلامی ممالک کی طرف سے صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کا بائیکاٹ صیہونی اور امریکی مجرم حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور سزا دلوانے کے لیے بین الاقوامی عدالت کا قیام،

  غزہ کی فوری تعمیر نو کے لیے خصوصی فنڈ کی منظوری کے ساتھ اسلامی ممالک سے فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد لے جانے والے بحری جہازوں کا قافلہ بھیجنا وغیرہ۔

کل سے غزہ کے مسئلے پر اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں ایرانی صدر کی موجودگی میڈیا اور نیوز چینلز کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

 اس مشترکہ اجلاس میں آیت اللہ رئیسی کی موجودگی کے بارے میں رپورٹ میں MCD نیٹ ورک کی عربی سائٹ نے لکھا ہے کہ عرب اور اسلامی رہنماؤں کی ملاقات ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی موجودگی میں ہوئی اور یہ ان کا سعودی عرب کا پہلا دورہ ہے جو دونوں ممالک کے مارچ میں چین کے تعاون سے ایک معاہدے کے بعد انجام پایا ہے جس سے سات سال کا تعطل ختم ہوا۔

 مذکورہ چینل کی سائیٹ نے مزید لکھا کہ ایرانی صدر نے فلسطینی عوام کے دفاع میں حزب اللہ، حماس اور یمن میں حوثی مزاحمتی فورسز کی حمایت کی۔ 

چینل فرانس 24 عربی نے ایک متعصبانہ عنوان "فلسطینیوں کو مسلح کرنا؟ کے ساتھ لکھا کہ سعودی عرب میں عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس میں ایران کے صدر نے غزہ کے بارے میں کیا کہا؟ انہوں نے اس ہنگامی اجلاس میں ایرانی صدر کے الفاظ کی اہمیت کو بیان کیا۔

اس سائٹ نے مزید لکھا کہ ایرانی صدر نے ریاض اور اسلامی ممالک سے کہا کہ وہ غزہ کی پٹی میں مسلح کارروائیوں کی وجہ سے اسرائیلی فوج کو "دہشت گرد تنظیموں" کی فہرست میں شامل کریں۔

ریاض میں عرب اور مسلم رہنماؤں سے اپنے خطاب میں رئیسی نے اسلامی ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ محصور فلسطینی علاقے پر صیہونی رجیم کے مسلسل حملوں کی صورت میں فلسطینیوں کو مسلح کریں۔

العالم چینل نے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کی مشترکہ کانفرنس کے موقع پر ایران کے صدر کے ساتھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات کو فوکس کیا۔

روزنامہ النہار نے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں ایرانی صدر کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے معاہدے کے بعد ایران کے صدر کا یہ پہلا دورہ ریاض ہے جسے اہم قرار دیا جارہا ہے۔

اس اخبار نے لکھا کہ سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ہفتے کے روز غزہ کے حوالے سے عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے مارچ میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب کا پہلا دورہ کیا جو سات سال کے ڈیڈلاک کے بعد انجام پایا۔

غزہ کے بارے میں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب جانے سے قبل رئیسی نے کہا کہ اب یہ مذاکرات کا نہیں ہے بلکہ عمل کا وقت ہے۔

سوئس عرب سائٹ نے سعودی عرب میں ایران کے صدر کی حیثیت سے ابراہیم رئیسی کی پہلی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے صدر رئیسی کے اس جملے کی طرف توجہ دلائی اور لکھا کہ رئیسی نے عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان سے کہا کہ وہ اسرائیلی فوج کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کریں۔ 

صحیفہ العرب کی ویب سائٹ نے ریاض میں ایران، قطر اور ترکی کی آوازوں کے عنوان کے ساتھ اس ملاقات میں ایرانی صدر کی موجودگی کی طرف خاص طور پر اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ سعودی عرب میں ایک صدر مختلف مقاصد کے ساتھ۔

اس سائٹ نے حماس کے قیدیوں کی رہائی کے لیے مختلف فریقوں کے ساتھ ملک کی ثالثی کے حوالے سے امیر قطر کے ساتھ ایران کے صدر کی مشاورت کا حوالہ دیا ہے۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مستقل اور مستحکم حل ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل ہے، فلسطینی علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں ایک فیصلہ کن اور تاریخی قدم اٹھانے پر زور دیا۔

الشرق الاوسط اخبار نے بھی ایرانی صدر اور سعودی عرب کے ولی عہد کی ملاقات اور مشترکہ اجلاس میں صدر رئیسی کی تقریر کو زیر بحث لایا۔

اس سربراہی اجلاس میں ایران کے صدر نے اپنے خطاب میں غزہ کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اہم اجلاس کے انعقاد پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم فلسطینیوں کی مدد کے لیے عالم اسلام کی جانب سے ریاض میں جمع ہوئے۔

المیادین نیوز چینل نے آیت اللہ رئیسی کے اس بیان کو سرخی کے طور پر لکھا کہ بیت المقدس پر قابض رجیم کو 75 سال کے غاصبانہ قبضے کے بعد فلسطینیوں کی زمینوں کو ہتھیانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور اس کے عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیلی قابضوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اس اجلاس میں اپنی شرکت کے دوران ایران کے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مسائل کا حل "اتحاد کے ذریعے" ہے اور صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی ممالک کی طرف سے فلسطینی عوام کو مسلح کرنے اور صیہونی رجیم کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس رجیم کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

لبنان کے اسلامک ایکشن گروپ "امل" کے ڈپٹی سکریٹری جنرل شیخ عبداللہ الصالح نے اس مشترکہ اجلاس میں ابراہیم رئیسی کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہ "ہم الفاظ نہیں بلکہ عمل چاہتے ہیں" اور "ہم محور مقاومت کے ساتھ عملی اعلان آمادگی چاہتے ہیں بیانات نہیں"، کہا کہ اس عرب اسلامی اجلاس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے، ایران کے صدر نے واضح طور پر کہا کہ غزہ کے عوام، جو صیہونی امریکی ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں، صرف خالی الفاظ نہیں بلکہ ٹھوس موقف اور فیصلہ کن اقدامات کے خواہاں ہیں۔

مرکز فلسطین کے ڈائریکٹر احمد ہزیمہ نے بھی اس مشترکہ اجلاس میں ایرانی صدر کی تقریر کے بارے میں کہا کہ صدر رئیسی اس اجلاس کے غیر متنازعہ ستارے تھے جس نے اپنے الفاظ میں مسلمانوں کے مرکزی مسئلہ کے بارے میں اسٹریٹجک نقطہ نظر کے اخلاقی اور بین الاقوامی پہلووں اور اس کے اہداف کو فلسطین کے مظلوم عوام کے درست موقف کے طور پر بیان کیا جو کہ اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک ایران کی مستحکم پالیسیوں میں سے ایک ہے۔

نتیجہ کلام

اس اجلاس کے بیانئے میں غزہ کی پٹی پر قابض رجیم کے حملے، جنگی جرائم اور بہیمانہ قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے غزہ پر مسلط کردہ ناکہ بندی اٹھانے اور خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت انسانی امداد کے قافلوں کی فوری رسائی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ایرانی صدر کی تجاویز مستقبل میں غزہ کی جنگ اور میدان میں فلسطینی اسلامی مزاحمت کی فتح میں کس طرح کارآمد ثابت ہوں گی اور بقول سید مقاومت کہ تمام تر توجہ میدان پر مرکوز ہونی چاہئے نہ تقریروں پر!