6 جون، 2025، 4:24 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

غزہ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، اب ایک ایسی وادی بن چکی ہے جہاں ہر گھر سے چیخ، ہر ملبے سے خون اور ہر گلی سے درد بھری صدا بلند ہو رہی ہے۔ مگر افسوس! ان صداؤں پر دنیا والوں کے کان بند ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: رات ابھی پوری طرح تاریک نہیں ہوئی تھی کہ دھماکے کی گونج نے پورے محلے کی خاموشی توڑ دی۔ خان یونس کا وہ گھر جو کبھی بچوں کی ہنسی سے گونجتا تھا، پل بھر میں خاکستر کا ڈھیر بن گیا۔ وہی گھر، جو ڈاکٹر حمدی النجار کے لیے زندگی کا سب سے بڑا نشان تھا، اب ان کی سب سے قیمتی چیزوں کی اجتماعی قبر بن چکا تھا۔ وہ ڈاکٹر جس نے سالوں تک لرزتے ہاتھوں اور امید سے بھرے دل کے ساتھ جنگ کے زخمیوں کی جان بچائی، آج وہ خود ملبے کے بیچ اپنے جگر گوشوں کے ٹکڑے تلاش کر رہا تھا وہ زندگی جو کبھی واپس نہیں آئے گی۔ ایک گہری خاموشی اور 9 معصوم بچوں کی لاشیں جو اب کبھی آواز نہیں دے سکیں گی۔ ان کی بیوی ڈاکٹر آلاء النجار اپنی سفید طبی وردی میں ہسپتال پہنچی، مگر نہ بچانے کے لیے بلکہ الوداع کرنے کے لیے۔ ایسا الوداع جو کسی ماں کے بس میں نہیں۔

ڈاکٹر حمدی النجار، جو علاقے میں ایک معروف جنرل ڈاکٹر تھے، اور ان کی بیوی، ڈاکٹر آلاء النجار، جو بچوں کی ماہر تھیں، اس شدید جارحیت کے باوجود، اپنے طبی عہد و پیمان کے ساتھ وفادار رہے؛ زخمیوں کے ساتھ کھڑے رہے، ان کا علاج کیا اور دوسرے بچوں کے آنسو پونچھے، مگر اس بار ان کا اپنا گھر جو ہر ماں باپ کے لیے سب سے محفوظ جگہ ہوتی ہے، جنگ کے میدان میں بدل گیا۔

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

وہ حملہ جس نے 9 بچوں کی آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش کردیں 

صہیونی حکومت کے ایک انتہائی مہلک فضائی حملے میں اس خاندان کے رہائشی گھر کو میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ دیواریں، کھڑکیاں، کھلونے اور اس خاندان کے ننھے ننھے بچے سب کچھ ایک ہی پل میں اس کی لپیٹ میں آگئے۔

9 بچے یحیی، رُکان، رُسلان، جُبران، إیف، ریفان، سیدین، لقمان اور سیدرا سب ایک ساتھ ملبے تلے دب کر خاموش ہوگئے۔ ان کی لاشیں شعلوں، مٹی اور لوہے کے ٹکڑوں کے بیچ ملیں؛ کچھ لاشیں جلی ہوئی تھیں، کچھ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھیں، اور کئی اجسام اتنے زیادہ جل چکے تھے کہ پہچاننا مشکل تھا۔ ان میں سے واحد زندہ بچ جانے والا 11 سالہ آدم النجار ہے، جو زخمی اور بے ہوش حالت میں ناصر ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ اس کی حالت نازک ہے۔ زندہ بچنے کی امید کم ہے، لیکن یہی وہ چھوٹی سی روشنی ہے جو اس تباہ شدہ گھر میں اب بھی باقی ہے۔

عربی ویب سائٹ "عربی 21" کی رپورٹ کے مطابق، اس دن ڈاکٹر حمدی النجار اپنی بیوی ڈاکٹر آلاء النجار کے ساتھ ناصر ہسپتال جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ حمدی نے اپنی بیوی کو ہسپتال پہنچایا اور واپس گھر لوٹا، مگر اچانک ان کے گھر کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

یہ اس جنگ کا سب سے دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ تمام طبی عملے کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ڈاکٹر آلاء کی وہ تصویر جو اس کپڑے کو سینے سے لگا رہی تھی جس میں اس کی چھوٹی بیٹی کا جلایا ہوا جسم لپٹا ہوا تھا، لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہوگئی۔ جب ڈاکٹر آلاء النجار ہسپتال پہنچی، تب بھی اس نے اپنا سفید طبی لباس پہنا ہوا تھا۔ پہلے وہ زخمی بچوں کے علاج کے لیے کام پر آتی تھی، مگر اب وہ اپنے ہی بچوں کے جلائے ہوئے اجسام کے سامنے کھڑی تھی۔

ایک ویڈیو جو فوراً سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، اس میں ہسپتال کے ہالوں میں اس کی دل دہلا دینے والی آواز سنائی دی: "میرے بچے، میرے بچے!" یہ صدا ایک ماں کے غم و الم کی علامت بن گئی۔ بہت سے طبی عملے کے ارکان اپنی آنکھوں کے آنسو روک نہ سکے۔ ڈاکٹر آلاء کی وہ تصویر، جس میں وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے بے جان جسم کو سینے سے لگا رہی تھی، لوگوں کی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگئی۔

ڈاکٹر حمدی النجار حملے کے بعد انتہائی نازک حالت میں اسپتال منتقل کیے گئے۔ ان کی ہڈیاں کئی جگہوں سے ٹوٹ چکی تھیں، دماغی چوٹیں اور گہرے زخم ان کی زندگی کو موت کے قریب لے آئے تھے۔ کئی دن تک وہ آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑتے رہے، مصنوعی سانس لینے والے آلے کی مدد سے زندہ رہے۔ ان کے زندہ رہنے کی بہت کم امید تھی۔ آخرکار وہ بھی اپنے ان ننھے مسافروں کے ساتھ شہید ہوگئے۔

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موت سے پہلے، ڈاکٹر النجار ہوش میں نہیں تھے۔ مگر آخری رات ان کے ساتھ موجود نرس نے بتایا کہ ان کی آنکھوں کے کنارے سے آنسو بہہ رہے تھے، جیسے وہ خواب میں اپنے بچوں کو پکار رہے ہوں۔

وہ فریاد جس نے دنیا کو ہلادیا

یہ المناک سانحہ بین الاقوامی میڈیا میں وسیع پیمانے پر موضوع بحث بنا۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور انسانی حقوق کے اداروں نے فوری حملے بند کرنے اور جنگی جرائم کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اٹلی کی حکومت نے یہ تجویز دی کہ زخمی بچے آدم النجار کو علاج کے لیے روم منتقل کیا جائے۔ بہت سے فلسطینی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عالمی برادری اب بھی غزہ کے عوام کی گہری تکلیف کے سامنے خاموش ہے۔

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

ڈاکٹر النجار کے ایک ساتھی نے انٹرویو میں کہا کہ یہ کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ وہ طبی عملہ جو دن رات دوسروں کی جان بچانے کے لیے کوشاں ہوتا ہے، اسے ایسا صدمہ برداشت کرنا پڑے؟

تشییع جنازہ کی تقریب میں ڈاکٹر النجار کے ساتھی کارکن، پڑوسی، بچ جانے والے رشتہ دار اور وہ بچے بھی موجود تھے جن کا علاج کبھی ڈاکٹر النجار نے کیا تھا۔ وہ گھر جس کے چراغ بچوں کی ہنسی سے روشن تھے، اب صرف نو تصویروں، مرجھائے ہوئے پھولوں کے گلدستوں، اور ایک دُکھتی ہوئی ماں کے ساتھ خاموشی کی وادی بن چکا ہے، جس کے پاس اب کچھ بھی نہیں بچا۔

یہ قصہ کوئی عام تلخ داستان نہیں بلکہ ختم نہ ہونے والے ظلم و ستم کی ایک زندہ دستاویز ہے۔ حمدی اور آلاء، دو ڈاکٹر جو زندگی کی خدمت کا عہد کرچکے تھے، نفرت کی اس آگ میں قربان ہو گئے جو انسانیت کو تباہ کر رہی ہے۔

غزہ کی ایک ماں کی وہ دردناک کہانی جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

ڈاکٹر آلاء نے نہ ایک، نہ دو، بلکہ اپنے نو بچوں کو جنگ میں کھو دیا ہے۔ نو ٹکڑے اس کے وجود کے، جو اب ملبے تلے، خون میں، چیخوں میں اور خاموشی میں دفن ہیں۔ان سب کے باوجود، اس نے کبھی اپنے کلینک کو بند نہیں کیا، کبھی علاج سے دستبردار نہیں ہوئی۔ اس نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے آنسو بھی چھپائے۔ جب پوچھا گیا کہ وہ کیسے آگے بڑھتی ہے تو اس نے کہا: اگر میں کھڑے ہونے کا حوصلہ نہ رکھوں، تو ہمارے بچوں کے زخم کون بھرے گا؟

ڈاکٹر حمدی النجار اور ان کی بیوی ڈاکٹر آلاء النجار نے بھرپور حملے کے باوجود انسانی فرض کو نبھایا۔ دونوں نے جنگ کے زخمیوں کے علاج کے لئے ہمیشہ اگلے محاذوں پر خدمات انجام دیں مگر اس بار ان کا اپنا گھر میدانِ جنگ بن گیا اور ویرانی کا منظر بن گیا۔

News ID 1933249

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha