مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ایجنسی: امام خمینیؒ صرف ایک مذہبی رہنما اور فقیہ نہیں تھے بلکہ ایک سیاسی مفکر بھی تھے جنہوں نے فقہ کو فردی زندگی کے نظم و ضبط سے نکال کر اسے ایک جامع فریم ورک میں تبدیل کیا جس کے ذریعے اسلامی حکومت کی تشکیل ممکن ہوئی اور ایران میں اسلامی انقلاب اہم اور بنیادی ثقافتی عناصر کی بنیاد پر تشکیل پایا۔
اس سلسلے میں مہر نیوز کی رپورٹر وردہ سعد نے عراق کی اعلی اسلامی کونسل کے ترجمان ڈاکٹر علی فاضل الدفاعی کا انٹرویو کیا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
مہر نیوز: کیا امام خمینی ایک جدید اسلامی ریاست کا نظریہ پیش کرنے میں کامیاب ہوئے؟ کیا وہ حکمرانی میں اسلامی قانون کی روح کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے؟
امام خمینیؒ نے اسلامی حکومت و سیاست کے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی جو اسلامی اصولوں اور قرآن کی تعلیمات پر مبنی تھا۔
انقلاب اسلامی صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ ایران کی تہذیبی اور ثقافتی حقیقت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک مکمل منصوبہ بندی تھی۔ امام خمینیؒ کی قیادت میں ایران میں جو انقلاب آیا، وہ ایک نیا سیاسی اور فکری ماڈل تھا، جس نے دنیا کو حیران کن طور پر یہ دکھایا کہ روحانی رہنماؤں کی قیادت میں بھی ایک مضبوط اور کامیاب حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔
اسلامی انقلاب نے جو تحریک پیدا کی اس نے سب کو حیران کر دیا کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مذہبی علماء کی حکومت سازی کا طریقہ ناکام ہو جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ جدید طرز حکمرانی کی تشکیل کا واحد نسخہ سیکولرازم ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے تہذیبی پیمانے پر ایک ریاست تشکیل دی جو بیک وقت اسلامی اصولوں کی پیروی کرتی ہے، اور اس کی طاقت کا سرچشمہ دین اسلام سے ایمان اور وابستگی پر مبنی ہے۔
اس طرح اس تحریک کی اہم ترین خصوصیات درج ذیل ہیں:
پہلی: اسلامی شریعت کی ماہیت کا تحفظ
امام خمینی نے سیاسی نظام کی تشکیل ولایت فقیہ کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح امام خمینی نے ملک میں قانون سازی کے مرکز کے طور پر اسلامی شریعت کی ماہیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ شریعت پر مبنی قوانین کے نفاذ کی نگرانی کے لیے شورائے نگہبان تشکیل دی۔
دوسری خصوصیت: معاشرے کے انتظام میں جدید سوچ کا استعمال
امام خمینی نے جدید طرز حکمرانی کے ذرائع کو استعمال کیا۔ پارلیمنٹ اور شورائے نگہبان جیسے ادارے قائم کیے گئے، یہ سب ایک جدید اور جمہوری طرز حکمرانی کے ادارے ہیں۔
اس طرز حکمرانی میں مقننہ، عدلیہ اور عاملہ کی شاخیں الگ الگ تشکیل دی گئیں۔
امام خمینی نہ صرف ایک مرجع تقلید تھے بلکہ ایک سیاسی مفکر بھی تھے جنہوں نے اسلامی فقہ کو انفرادیت سے نکال کر ایک مسلمان کے زندگی کے جامع فریم ورک میں بدل دیا۔
مہر نیوز: بہت سے معاملات میں، بڑے عالمی انقلابات ثقافتی انقلاب کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم نے چین اور کچھ دوسرے ممالک کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے جو فکری اور ثقافتی سطح پر استعمار سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ امام خمینی کی فکر میں ثقافتی انقلاب کے عناصر کیا تھے؟ اور اس نے ان عناصر کو ایرانی معاشرے میں کیسے داخل کیا، جو سابق شاہ کے دور حکومت میں وسیع اور گہری مغربیت کا شکار ہو چکا تھا؟
ہر انقلاب کو ان فکری بنیادوں پر ثابت قدم رہنا چاہیے جن پر اس کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس طرح ماضی کی تمام ثقافتی جڑیں جو ان
بنیادوں سے متصادم ہیں، تباہ ہوں گی اور اس سمت میں بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی۔
امام خمینی کے بارے میں یہ کہنا چاہیے کہ اسلامی انقلاب، شاہی استبداد کو ختم کرنے کا کوئی خالص سیاسی واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایران کی ثقافتی اور تہذیبی نوعیت کو بدلنے اور اسے ایک جامع اتھارٹی کے طور پر اس کے اسلامی تشخص کی طرف لوٹانے کا ایک مکمل منصوبہ تھا۔
ایران میں اسلامی انقلاب ایک اہم اور بنیادی ثقافتی عناصر کی بنیاد پر تشکیل پایا۔ امام خمینی رح کا عقیدہ تھا کہ ثقافت صرف ادب اور فن تک محدود نہیں ہے بلکہ اقدار، طرز عمل اور سماجی و سیاسی ترتیب کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیتی ہے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے مغربی عناصر کے خلاف اسلامی ثقافتی عناصر کے تحفظ پر زور دیا اور اسلامی ثقافتی اصولوں کو انقلابی نظریات اور معاشرے میں ان کے ماخذ سے ہم آہنگ بنایا اور اسلام کے اصولوں کو اس انقلاب کے اہم ترین عناصر قرار دیا گیا، اور مغربی ثقافت کو مغربی استعمار کے آلہ کار کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ اس ماڈل میں ثقافتی آزادی سیاسی اور اقتصادی آزادی سے کم اہم نہیں ہے اور اسی وجہ سے امام خمینی نے اپنی تقاریر میں فرمایا کہ استعماری ثقافت اس کے ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقاریر اور بیانات میں مغرب کے فکری اصولوں پر تنقید کی جن میں لبرلسٹ، مارکسسٹ اور ہیومنسٹ نقطہ نظر شامل ہیں۔
انہوں نے لوگوں کو قرآن و سنت اور اسلامی فقہ اور فلسفہ سے متعلق علم پر مبنی انسانیت اور سائنسی بنیادیں تیار کرنے کی ترغیب دی۔
امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی فتح اور شاہ کی آمرانہ حکومت کے زوال کے ساتھ ہی، بعض عرب حکومتون نے گھبراہٹ کا شکار ہو کر انقلاب مخالف سرگرمیاں شروع کیں اور اپنے ملکوں میں اسلامی انقلابی فکر کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جنگ بھی شروع کر دی۔ کیا یہ حکومتیں اسلامی انقلاب کے تصورات کو منتقل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوئیں؟ کیا امام خمینی انقلاب کو برآمد کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ سیاسی حلقوں میں طویل عرصے سے پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا؟
ایران میں اسلامی انقلاب کی بنیاد تین اہم ستونوں پر ہے جن میں قوم، اسلامی روح اور امام خمینی کی شخصیت شامل ہیں۔
ایک ایسے خطے میں جہاں کے عوام نے کبھی ارادے کی آزادی اور مخلص اور سچے لیڈروں کا مشاہدہ نہیں کیا ہو، یہ فطری بات ہے کہ خطے کی بعض عرب حکومتیں اور یہاں تک کہ خطے کی غیر عرب حکومتیں بھی ایرانی انقلاب سے خوف اور دہشت محسوس کرتی ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مظلوم اور دبے ہوئے لوگوں کے درمیان آزادی سے ایسے ردعمل پیدا ہو سکتے ہیں جس سے موجودہ کٹھ پتلی حکومتوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
امام خمینی رح نے اسلام کی عالمی آزادی کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا، جو عرب آمریتوں اور مغربی ممالک کو گوارا نہیں تھا۔
1:عرب حکومتوں کے خدشات
کئی عربی حکومتی رہنماؤں نے محسوس کیا کہ انقلاب اسلامی ایران ان کے اپنے سیاسی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ خلیج فارس کے کچھ ممالک نے ایران کی اسلامی انقلاب کو اپنے اقتدار کے لیے ایک سنگین چیلنج سمجھا اور اس کے اثرات کو روکنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں سختی اختیار کی۔
2: اسلامی انقلاب سے دشمنی
عراق کی ایران کے خلاف جنگ، جو عربی ممالک کی مالی اور فوجی حمایت سے شروع ہوئی، دراصل انقلاب اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثرات کو روکنے کی ایک کوشش تھی۔ بعض مذہبی اداروں نے اس وقت کے عربی حکومتی بیانیے کی حمایت کی اور ایران کے انقلاب کو "شیعی انقلاب" کے طور پر پیش کیا تاکہ اہلِ سنت کے درمیان اس کی مقبولیت کو کم کیا جا سکے۔
3. انقلاب اسلامی کی کامیابیاں
اگرچہ عربی حکومتوں نے انقلاب اسلامی کے اثرات کو روکنے کے لیے کئی تدابیر اختیار کیں، لیکن طویل مدت میں انقلابی خیالات کی تاثیر مختلف ممالک میں پھیل گئی۔ اسلامی تحریکوں نے ایران کے انقلاب سے تحریک لی، جن میں فلسطین کی جهاد اسلامی اور حماس کی تحریک شامل ہیں۔ ان تحریکوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے امریکہ اور صہیونیت مخالف پیغام کو اپنا لیا۔
4. امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ دشمنی
انقلاب اسلامی ایران نے "مرگ بر امریکہ" اور "مرگ بر اسرائیل" کے نعرے بلند کیے اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مضبوط موقف اپنایا۔ انہوں نے اہلِ سنت کے درمیان بھی ایک نیا نظریہ پیدا کیا۔ فلسطین میں جہاد اسلامی اور حماس جیسی تحریکوں نے انقلاب اسلامی کے پیغام سے متاثر ہو کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
5. امام خمینیؒ کا وحدت کا پیغام
امام خمینیؒ نے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان وحدت کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے نظریہ وحدت پر مبنی اسلامی انقلاب کے پیغام کو نہ صرف شیعہ بلکہ اہلِ سنت دنیا میں بھی پذیرائی ملی۔
آپ کا تبصرہ