مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ حضرت علی (ع) 13 رجب سنہ 30 عام الفیل کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امیر المؤمنین (ع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے 10 سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور تاریخ اسلام کے واقعات میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہے اور ان کی وفات کے بعد تیس سال تک زندہ رہے، ان کی کل تریسٹھ سال کی زندگی کو مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
سب سے پہلا دور ولادت سے لے کر بعثت تک، پھر رسول خدا(ص) کے بعثت سے ہجرت، پھر ہجرت سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت تک، پھر خلیفہ اول کی خلافت کے آغاز سے لے کر اپنی ظاہری خلافت کے آغاز تک اور آخر میں حضرت امیر المؤمنین (ع) کی اپنی ظاہری خلافت سے شہادت تک۔
اپنی زندگی کے پہلے دور میں جو ان کی شخصیت کی تشکیل کا ایک اہم دور تھا، امام علی علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں رہتے تھے اور ان کی سرپرستی میں تھے۔ اسلامی مورخین اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ایک سال مکہ میں ایک بہت بڑا قحط پڑا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ابوطالب کا بڑا خاندان تھا اور ان پر بھاری بوجھ آیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنے چچا عباس جو بنو ہاشم کے امیر ترین لوگوں میں سے تھے، کو مشورہ دیا کہ ہم میں سے ہر ایک ابو طالب کے ایک بیٹے کو اپنے گھر لے جائے تاکہ ابو طالب کا مالی دباؤ کم کیا جاسکے۔ عباس راضی ہو گئے اور وہ دونوں ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔ حضرت ابوطالب (ع) نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اس کے نتیجے میں، عباس نے ابوطالب (ع) کے بیٹے جعفر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے گیا۔ حضرت علی علیہ السلام بعثت تک رسول اکرم (ص) کے گھر میں رہے۔ امام علی علیہ السلام نے آنحضرت (ص) کی نبوت کی تصدیق کی اور ان کی اطاعت کی۔ حضرت علی علیہ السلام کو اپنا حامی بنانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس شخص کا انتخاب کیا ہے جس کو اللہ نے میرے لیے منتخب کیا ہے۔
چونکہ حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد پیغمبر اکرم(ص) اپنے چچا ابوطالب (ع) کے گھر میں پلے بڑھے تھے اور کم عمری میں ان کی سرپرستی میں تھے، اس لیے آپ (ص) ان کے ایک بیٹے کو اپنی سرپرستی میں لے کر ان کی زحمات کا اچھا صلہ دینا چاہتے تھے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دوران ایک خطبے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں اپنی تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ لوگ (صحابہ) رسول خدا(ص) کے ساتھ میرے قریبی تعلقات اور ان کے ساتھ خصوصی لگاؤ سے واقف ہیں۔ جب میں بچہ تھا تو پیغمبر اکرم(ص) مجھے اپنے سینے سے لگاتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر بٹھاتے تھے تاکہ میں ان کے جسم کو چھوؤں، اس کی خوشبو سونگھوں اور وہ میرے منہ میں کھانے کا لقمہ ڈالتے تھے۔ میں آنحضرت (ص) کے پیچھے جاتا تھا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے پیچھے جاتا ہے۔ آنحضرت (ص) ہر روز مجھے اپنی اخلاقی خوبیاں سکھاتے اور ان پر عمل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی منزلت کے بارے میں آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ قیامت کے دن جو شخص کوثر کے کنارے مجھ سے ملے گا وہ اسلام لانے میں تم میں سب سے زیادہ پیش قدم، علی ابن ابی طالب ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب اسلام کا نور ظاہر ہوا تو آنحضرت اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بعد میں تیسرا شخص تھا جس نے نبوت کا نور دیکھا۔
عفیف بن قیس الکندی کہتے ہیں: میں زمانہ جاہلیت میں عطر کا تاجر تھا۔ میں ایک کاروباری دورے پر مکہ پہنچا اور مکہ کے بڑے تاجروں میں سے ایک عباس کا مہمان بن گیا، ایک دن میں مسجد الحرام میں عباس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، جب سورج اچھی طرح طلوع ہوا تو ایک نوجوان مسجد میں آیا جس کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے لگا۔ اس کے بعد ایک اور خوبصورت نوجوان آیا اور نماز میں شامل ہوگیا۔ پھر ایک عورت آئی جو اپنے آپ کو ڈھانپ رہی تھی اور دونوں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ تینوں نے ایک ساتھ نماز پڑھی، رکوع کی اور سجدہ کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مشرکین کے مرکز میں تین لوگوں نے بت پرستی چھوڑ کر کسی اور مذہب کا انتخاب کیا ہے تو میں نے عباس کی طرف رخ کیا اور کہا: یہ بہت بڑا واقعہ ہے! انہوں نے اس جملے کو دہرایا اور کہا، "کیا آپ ان تین لوگوں کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ عباس نے کہا: پہلا شخص جو سب سے پہلے داخل ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہے، اور دوسرا شخص میرا دوسرا بھتیجا علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے اور تیسرا شخص محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہے۔ وہ دعوی کرتا ہے کہ اس کا دین خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اب زمین پر ان تین لوگوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین کی پیروی نہیں کرتا ہے۔ اس واقعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے آغاز میں ان کی زوجہ حضرت خدیجہ کے علاوہ صرف امام علی علیہ السلام نے ان کا دین قبول کیا تھا۔
اخوت اور بھائی چارہ اسلام کے سماجی اصولوں میں سے ہیں۔ رسول خدا (ص) نے مختلف طریقوں سے اس تعلق کو قائم اور مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے مہاجر مسلمانوں اور انصار کے درمیان بھائی چارے کا عقد اخوت باندھنے کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد کے لیے ایک دن مسلمانوں کے اجتماع میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ اللہ کی راہ میں بھائی بن جاؤ۔ پھر مسلمانوں نے ایک دوسرے کو بھائی بنایا اور یوں ان کے درمیان اتحاد اور یکجہتی مضبوط ہو گئی۔
عقد اخوت میں کے اس رسم میں کردار کے لحاظ سے افراد کی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور تناسب کا خیال گیا تھا۔ امام علی علیہ السلام اکیلے رہ گئے تو انہوں نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا: آپ نے میرے اور کسی کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم نہیں کیا ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو دو جہانوں میں میرا بھائی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے درمیان عقد اخوت پڑھا۔ یہ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت اور فضیلت اور آنحضرت (ص) کے نزدیک آپ کے مقام کا واضح ثبوت ہے۔
آپ کا تبصرہ