8 جون، 2024، 9:58 PM

سینئر ترک تجزیہ کار کی مہر نیوز سے گفتگو؛

ریاض اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہے

ریاض اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہے

ترکی کی برسا ٹیکنیکل یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ ریاض اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہے

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ جنگ کے آغاز کو کئی ماہ گزر چکے ہیں جس میں اب تک لاکھوں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام عالمی رائے عامہ کی بیداری  کا باعث بنا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غزہ کی پٹی کے نہتے فلسطینیوں کی حمایت میں تل ابیب کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے دنیا بھر میں متعدد جلوس نکالے جارہے ہیں اور جنگ  کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔

مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہر سال سعودی عرب میں ہوتا ہے، جہاں دنیا کے مختلف حصوں سے مسلمان مناسک حج کی ادائیگی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اس اجتماع کو مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بلند کرنے اور غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کی مذمت کرنے کے اہم مواقع میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ غزہ جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ عازمین حج کو اسرائیل مخالف نعرے لگانے یا تل ابیب رجیم کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اس سلسلے میں ترکی کی برسا ٹیکنیکل یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر نے مہر نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تزویراتی طور پر، سعودی عرب تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیش کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہے۔ ریاض داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے قومی ترجیحات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ تاکہ مملکت میں عرب بہار کے کسی بھی نئے خطرے سے بچا جاسکے۔ اس کا یہ نقطہ نظر مذہبی فرائض کی ادائیگی اور سیاسی مفادات کے درمیان توازن کی عکاسی کرتا ہے۔ 

 انہوں نے کہا کہ اگرچہ سعودی عرب نے اسلامی مقدس مقامات کے محافظ کی حیثیت سے تاریخی طور پر فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ لیکن سیاسی، اور اسٹریٹجک عوامل کے پیچیدہ تعامل کی وجہ سے مقدس سرزمینوں میں اسرائیل کے خلاف بات چیت یا احتجاج کی اجازت نہیں دے رہا۔

مذہبی نقطہ نظر سے ریاض کا بنیادی کام حج کی حفاظت اور حرمت کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم سعودی عرب کا خیال ہے کہ مکہ میں اسرائیل مخالف مباحثوں سے مقدس مقامات کو سیاسی میدان میں تبدیل ہونے کا خطرہ لاحق ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی حکام کو خدشہ ہے کہ سیاسی مظاہروں کی اجازت دینے سے بدامنی پھیل سکتی ہے، جس سے حاجیوں کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر، سعودی عرب ایران کا مقابلہ کرنے اور خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 

ترک پروفیسر نے کہا کہ ریاض بھی دیگر عرب ملکوں کی طرح عرب دنیا میں حماس کے امیج کو ابھرنے نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس غزہ کی موجودہ  صورت حال میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے خاموش رویے کو ترجیح دیتا ہے۔ 

News ID 1924559

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha