مہر خبررساں ایجنسی نے ترک ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترکی کی حکومت نے گزشتہ سال ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کو بہانہ کر اب تک اپنے ہی شہریوں پر ظلم و تشدد، استبداد اور عتاب کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ترک حکومت نے ہزاروں فوجیوں ،ججوں، اور تعلمی اداروں کے افراد کو سلاخوں کے پيجھے بند کرنے کے بعد اب مزید ایک معروف گلوکار اور کئی صحافیوں سمیت 28 افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کردی ہے۔ ایک مشہور گلوکار اور کئی صحافیوں کے مقدمے میں نامزد ہونے کے باعث انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں یہ مقدمہ موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ ترک حکومت مسلح فوجی بغاوت کا الزام سنی عالم دین فتح اللہ گولن پر عائد کرہرک ہے اور فتح اللہ گولن کے تمام حامیوں کو سرکاری اداروں سے معطل کردیا گیا ہے یہاں تک ترک حکومت نےفتح اللہ گولن کے پاکستان میں چلنے والے مدارس کو بھی بند کروادیا ہے۔ترک حکومت نے فتح اللہ گولن کے مبینہ حامیوں کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈاون کیا تھا جس کے تحت گزشتہ سال جولائی سے اب تک 41 ہزار افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جب کہ 100 سے زائد اخبارات، جرائد اور میڈیا ادارے بند کیے جاچکے ہیں۔انسانی حقوق کے تنظیموں کا کہنا ہے کہ ترکی میں مختلف الزامات کے تحت 150 سے زائد صحافی پابندِ سلاسل ہیں اور ترک حکومت کی سخت کارروائیوں کے باعث ملک میں آزادی اظہار کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر اردوغان کومخالفین کو کچلنے کا بہترین موقع مل گیا ہے جس پر عالمی اداروں کو سخت تشویش لاحق ہے۔
ترکی کی حکومت نے گزشتہ سال ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کو بہانہ کر اب تک اپنے ہی شہریوں پر ظلم و تشدد، استبداد اور عتاب کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ترک حکومت نے ہزاروں فوجیوں ،ججوں، اور تعلیمی اداروں کے افراد کو سلاخوں کے پيجھے بند کرنے کے بعد اب مزید ایک معروف گلوکار اور کئی صحافیوں سمیت 28 افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کردی ہے۔
News ID 1871407
آپ کا تبصرہ