مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جب تاریخی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کا مأمون کے ہاتھوں مسموم ہو کر شہید ہونا ایک ایسا مطلب تھا جو خود مأمون کے زمانۂ خلافت میں بھی مشہور ہو گیا تھا اور زبان زد عام و خاص تھا اور یہ شہرت اس قدر زیادہ تھی کہ خود مأمون بھی تنگ آگیا تھا اور لوگوں سے شکوہ کرنے لگاتھا کہ امام علیہ السلام کو مسموم کرنے کا الزام اُس کے سر پر کیوں آرہا ہے!۔
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے اجتماع کیا اور ان کے درمیان یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ اس شخص(یعنی مأمون) نے حضرت کو شہید کردیا ہے،مأمون کے خلاف یہ شور و غل اور احتجاج اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ مأمون نے مجبور ہو کر امام علیہ السلام کے چچا محمد بن جعفر کو لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ وہ انہیں قانع کریں کہ امام علیہ السلام آج اس پر آشوب فضا کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل رہے اور اس طرح عوام کو منتشر کر دیں۔
ابن خلدون نے حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند ابراہیم کے قیام کی وجہ یہ سمجھی ہے کہ ابراہیم اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی شہادت کاعامل(قاتل)مأمون کو سمجھتے تھے ۔ تاریخ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابراہیم ابن موسيٰ کاظم علیہ السلام بھی مأمون کے ہاتھوں مسموم ہو کر شہید ہوئے اور اسی طرح ابراہیم کے ایک اور بھائی زید ابن موسيٰ کاظم علیہ السلام؛جنہوں نے مصر میں قیام کیا،وہ بھی مأمون خلیفہ کے ہاتھوں مسموم ہوئے۔
یعقوبی کا یہ لکھنا کہ مأمون نے ابراہیم اور زید کو عاف کردیا(اور انھیں ان کے قیام کی وجہ سے انتقام کا نشانہ نہیں بنایا ،یہ بھی صحیح ہوسکتا ہے اور وہ اس طرح سے کہ اس مکار سیاستمدار خلیفہ نے ایک دفعہ لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کیا ہو کہ اُس نے امام علیہ السلام کے بھائیوں کو معاف کردیا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد ہی مخفیانہ طور پر دونوں کو یکے بعد دیگرے مسموم کرکے شہید کردیا ہو ۔
تاریخ کے بعض حوالوں کی روشنی میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے ایک اور بھائی’’احمد ابن موسيٰ‘‘علیہ السلام جونہی مأمون کے حیلے سے مطلع ہوئے تو انہوں نے تین ہزار۔ایک دوسری روایت کے مطابق بارہ ہزار۔ افراد کے ہمراہ بغداد سے قیام کردیا۔مأمون کے شیراز میں کارندے’’قتلغ خان‘‘نے خلیفہ کے حکم سے اسقیام کا مقابلہ کیا اور کچھ جنگ کے بعد اُس نے احمد بن موسيٰ ان کے ایک بھائی’’محمد عابد‘‘اور ان کے ہمراہیوں کو شہید کردیا۔
انہیں ایام میں امام رضا علیہ السلام کے ایک اور بھائی’’ہارون بن موسيٰ‘‘علیہ السلام بائیس۔ علویوں کے ساتھ خراسان کی طرف روانہ ہوئے۔ اس قافلہ کی سالار و سرپرست حضرت امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرۂ بزرگوار یعنی معصومہ بنت امام موسيٰ کاظم علیہما السلام تھی ۔مأمون کو خبر ملی تو اُس نے اپنے فوجی ملازمین کو حکم دے دیا کہ وہ قافلے پر حملہ آور ہو جائیں،اس حملے سے تمام اہل کاروان زخمی ہوگئے،ہارون بن موسيٰ بھی اس ظالمانہ حملے میں زخمی ہو گئے لیکن جان سے بچ گئے لیکن کچھ مدت کے بعد ہی کھانے کے دستر خوان پر ایک اچانک اور غافلگیر حملے میں قتل کر دیے گئے۔
تاریخ میں ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو بھی قم پہنچنے سے پہلے ساوہ میں مسموم کردیا گیا کہ جس کے اثر سے قم میں حضرت معصومہ چند دنوں (تقریباً ۱۷دنوں) کے بعد شہید ہوگئیں۔
مأمون کی دیگر جنایات میں امام موسيٰ کاظم علیہ السلام کے ایک اور فرزند’’حمزہ بن موسيٰ ‘‘ علیہ السلام کی شہادت بھی ہے۔
اس تمام تاریخی سیاق و سباق اور لوگوں کے ہاں موجود شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کا خلیفہ مأمون کے ہاتھوں مسموم و مقتول ہونا ایک ایسی مشہور بات تھی کہ انھیں ایام شہادت میں بھی لوگوں کے درمیاں یہی بات ہونے لگی کہ امام علیہ السلام کو اس شخص(مأمون) نے زہر دے کر شہید کر دیا ہے۔
ماہ صفرالمظفر کا آخري دنآسمان امامت اور ولایت کے آٹھویں درخشاں ستارے اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے فرزند حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں اہل بیت علیہم السلام کے دوستدار اور چاہنے والے ان کے غم میں عزادار اور سوگوار ہیں۔
آج کے دن خاص طور پر ایران کے مقدس شہر مشہد میں امام رضا علیہ السلام کے حرم اطہر کی پوری فضا سیاہ پوش اور لاکھوں کی تعداد میں اہلبیت علیہ السلام کے عاشقین حرم اطہر کی ملکوتی فضاؤں میں دعا و مناجات کے دلنشین زمزموں کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت ، زیارت اور نوحہ و عزاداری میں مشغول ہیں ۔
زائرین امام رضا ، خلوص و پاکیزگی سے معمور قلوب کے ساتھ اس مکان مقدس میں جمع ہوئے ہیں اور دنیا وآخرت کی سعادت و کامرانی کی دعائیں کررہے ہیں -
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو " عالم آل محمّد " کے عنوان سے پہچانا جاتاہے کیونکہ آپ نے ولایت اور نبوت و امامت کی مانند اسلام و تشیع کی بنیادی بحثیں ، درباری علماء کے درمیان علی الاعلان بیان کی ہیں اور لوگوں کے شکوک و شبہات کو برطرف کیا ہے ۔
آپ کا تبصرہ