مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے 11ذی القعدہ 841ھ میں مدینہ منورہ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی .اس کے تقریباً ایک ماہ قبل 51شوال کو اپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کی وفات ہوچکی تھی اتنے عظیم حادثہ مصیبت کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًاگھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی.
آپ کی نشونما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئی اور پینتیس برس کی عمر پوری ہوئی. اگرچہ اخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگر اس سے پہلے 82یا92برس اپ کو برابر پدرِ بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا.
حضرت امام علی رضا علیہ السّلامکی پینتیس برس کی عمر جب اپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات ہوئی اور امامت کی ذمہ داری اپ کی طرف منتقل ہوئی .یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ناساز گار تھے . اس ناخوشگوار ماحول میں حضرت علیہ السّلام نے خاموشی کے ساتھ شریعت ُ حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیا.
آلِ محمد علیہ السّلام کے اس سلسلہ میں ہر فرد حضرت احادیث کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقعہ دیا اور کسی کو زیادہ , چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے تو وہ امام رضا علیہ السلام ہیں .
حضرت امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم کے بعد دس برس ہارون کادور رہا . یقیناً وہ امام رضا علیہ السّلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح پر برداشت نہیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پہلے اپ کے والد بزرگوار کو رہنا اس نے گورا نہیں کیا . مگر یا تو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر اپ دنیا سے رخصت ہوگئے اس سے حکومت ُ وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ہو ااور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السّلام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی
جب ہارون کی آنکھ بند ہوگئی ادھر بھائیوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے . اخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم891ھ میں تلوار کے گھاٹ اتارا دیا گیا اور مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پر قائم ہوگئی . لیکن سادات اور علویوں کو پھر بھی آرام اور سکون حاصل نہیں ہوا ۔ اسی لئے شیعہ ہرجگہ ہارون رشید کے ظالمانہ رویّہ اور حکومت عباسی اور خاندان عباسی سے بہت تنگ تھے۔ اور آپس میں بغاوت کی تحریک چلا رہے تھے۔
مامون نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوۓ امام رضا علیہ السلام کو مرو میں بلایا۔ درحقیقت مامون اپنی مکروہ حرکت سے امام(ع)کوولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا اور وہ اس کام سے اپنے غلط پالسیوں پر پردہ ڈالنا چـاہتاتھا۔ امام رضا(ع) نے مامون کی دعوت کو مسترد کردیا۔ تو مامون نے دھمکیوں اور ظلم کے سہارے امام(ع) کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ امام علیہ السّلام کا اس ولی عہدی کوقبول کرنا بالکل ایسا ہی تا جیسا ہارون کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کا جیل خانہ چلے جانا,اسی لیے جب امام رضا علیہ السّلاممدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روانہ ہورہے تھے تو اپ کے رنج وصدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی روضئہ رسول سے رخصت کے وقت اپ کا وہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کا مدینہ سے روانگی کے موقع پر تھا .دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اپ بیتابانہ روضئہ کے اندر جاتے تھے اور نالہ واہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں . پھر باہر اتے نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں او پھر دل نہیں مانتا , پھر روضہ سے جاکر لپٹ جاتے ہیں . یہی صورت کئی مرتبہ ہوئی . راوی کابیان ہے کہ میں حضرت علیہ السّلام کے قریب گیا تو فرمایا اے محول میں اپنے جدِامجد کے روضہ سے بہ جبر جُدا کیا جارہا ہوں . اب مجھ کو یہاں واپس انا نصیب نہ ہوگا .
102ھ میں حضرت علیہ السّلام مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روان ہوئے , اہل وعیال اور متعلقین سب مدینہ ہی چھوڑ گئے .
یکم رمضان 102ھ ء روز پنجشنبہ جلسہ ولی عہدی منعقد ہوا .بڑی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی.
امام علیہ السلام سے جھاں تک ممکن تھا آپ نے اپنی عمر کے آخری تین سالوں میں لوگوں کو بیدار کرنے اور اسلام کی طرف متوجہ کرنے پر مخصوص روش اپنائی تھی کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کو کسی قدر آسودگی اور خلیفہ کی طرف سے تھوڑی بھت آزادی مل گئی تھی لیکن جیسے ھی آپ اپنے مشن پر آگے بڑھے اور لوگوں نے آپ کی طرف جوق در جوق آنا شروع کیا، خلیفہ مامون رشید سے رھا نہ گیا کیونکہ اس کی رعایا اس کے حاکم ھونے کے باوجود امام علیہ السلام کی گرویدہ ھو رھی تھی لھذا اس نے آپ کو زھر دے دیا اور آپ بھی اپنے والد گرامی کی طرح درجۂ شھادت پر فائز ہو گئے۔
آپ کی شھادت 203ھء میں 55 سال کی عمر میں ھوئی تھی۔ آپ کا عالیشان روضۂ اقدس جمھوری اسلامی ایران کے شھر” مشھد مقدس “ میں ھے جھاں ھر دن دنیا بھر سے ھزاروں کی تعداد میں آپ کے چاھنے والے زیارت کرنے آتے ھیں۔
آپ کا تبصرہ