مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، گارڈین اخبار نے ایک تفصیلی رپورٹ میں یمن کے خلاف حالیہ امریکی اور برطانوی فضائی حملوں کو مشرق وسطیٰ میں ناکام مغربی پالیسیوں کے سلسلے کی ایک اور مایوس کن علامت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کا اثر و رسوخ بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ جب کہ ایران خطے کی پہلی طاقت بن چکا ہے۔
گارڈین کے مطابق مشرق وسطیٰ میں مغرب کی ناکامیوں کے سلسلے کی خاص بات کئی دہائیوں سے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں مغرب کی نااہلی ہے۔ یہ حقیقت کہ امریکہ، برطانیہ کی حمایت سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر یمن کے حملوں کے جواب میں طاقت کا سہارا لینے پر مجبور ہوا، اس تلخ سچائی کو آشکار کرتی ہے کہ واشنگٹن کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے جب کہ اس کی سفارت کاری غیر موئثر اور اس کی طاقت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔
دریں اثنا حوثیوں (انصار اللہ) نے بحیرہ احمر میں اپنے حملوں کو بلا خوف و خطر جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ یہ پریشان کن تناؤ، جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا، ایک اور ناخوشگوار حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے وہ یہ کہ امریکہ، مغرب پرست مصر، سعودی عرب یا حتیٰ کہ اسرائیل اب مشرق وسطیٰ میں غالب طاقت نہیں رہے، لیکن یمن کے اہم اتحادی ایران نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔
صیہونی رجیم کے ہاتھوں غزہ کے عوام کے وحشیانہ قتل عام نے یمن کو رد عمل پر مجبور کیا، اس جنگ کے جیتنے والوں اور ہارنے والوں کے بارے میں بات کرنا سطحی ہوگی۔ تاہم، اسٹریٹجک نقطہ نظر سے، یہ واضح ہے کہ کون اس بحران سے کامیابی کے ساتھ نکلے گا۔ ہر فلسطینی کی موت، حزب اللہ کی طرف سے داغے گئے ہر میزائل، شام اور عراق کی طرف سے ہر بمباری اور یمنی ڈرون سے ایران کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔
7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف فلسطینی اسلامی مزاحمت (حماس) کے آپریشن کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے فوری طور پر تل ابیب کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی تجاویز کو ویٹو کر دیا۔ جلد بازی میں کی گئی اس کارروائی نے واشنگٹن کو دنیا اور بیشتر امریکیوں کی نظروں میں رسوا اور تنہا کر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں اس کی پالیسی ناکام اور معروضی حقائق سے عاری معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ امریکہ عرب دنیا میں کبھی بھی مقبول نہیں رہا اور عرب ہمیشہ اسے "ناگزیر برائی" سمجھ کر برداشت کرتے آئے ہیں۔ لیکن اب معاملہ ایسا نہیں رہا۔ بلکہ اب غیر عرب ایران اس تبدیلی کے پیچھے ہے اور وہ بھی فیصلہ کن پوزیشن میں۔
7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کو بھی اسٹریٹجک دھچکا لگا۔ تاہم، اس کے انتہا پسند سیاست دانوں کو ابھی تک اس کا ادراک نہیں ہے۔ غزہ میں خوفناک تشدد نے تل ابیب کے بارے میں دنیا کا نظریہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا، جیسا کہ ہیگ میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے بے مثال الزامات سے ظاہر ہوتا ہے۔
لندن میں سعودی سفیر خالد بن بندر نے گزشتہ ہفتے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو مزید خصوصی کیس نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
یہ تمام پیش رفت ایران کے فائدے میں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے تین اہم اہداف ہیں: 1979 کے انقلاب کے بعد شیطان بزرگ یعنی امریکہ کو مشرق وسطیٰ سے نکال باہر کرنا۔
علاقائی بالادستی کو برقرار رکھنا اور تیسرا اپنے اہم اتحادیوں یعنی روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا۔
گارڈین نے دعویٰ کیا ہے: خطے میں مزاحمتی عناصر ایک دوسرے سے الگ الگ کام کرتے ہیں، لیکن بظاہر ایران نے امریکہ کو مار بھگانے کے لیے ایک ریموٹ کنٹرول اتحاد تشکیل دیا ہے، اور یمن کے ٹھکانوں پر بمباری اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرتی ہے، بلکہ اس سے پورے خطے میں تہران کے امریکہ اسرائیل مخالف مزاحمتی بیانئے کو تقویت ملے گی۔
ایران نے ایک دانشمندانہ اقدام کے تحت گزشتہ سال خلیج فارس میں اپنے حریفوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے اور ریاض کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے جہاں چین تعلقات کی بحالی میں اہم کردار کے طور پر اس پیش رفت کا ثالث تھا۔
بیجنگ اور ماسکو تہران کے بہترین دوست ہیں۔ جنہوں نے دیگر عوامل سے بڑھ کر ایران کی تقدیر بدل دی اور اس ملک کو ایک ایسی طاقت میں تبدیل کر دیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
روس کا یوکرین پر حملہ، نیز چین اور روس کے درمیان "لامحدود" تعاون کا معاہدہ، جو جنگ شروع ہونے سے پہلے طے پایا تھا، بھی ایران کی علاقائی طاقت بننے کا محرک تھا۔
یوکرین جنگ اور اس کے نتائج نے بیجنگ اور ماسکو کے ابھرتے ہوئے نظرئے کو مزید مضبوط اور پختہ بنا دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے خاتمے کے بعد امریکی بالادستی کے زوال پر مبنی اس نظرئے میں واشنگٹن کی مرکزیت کے بین الاقوامی نظام کے زوال اور اس کی جگہ نئے عالمی نظام کے خدوخال متعین ہوئے۔
شی جینگ پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں، چین نے اثر و رسوخ کے جغرافیائی اور اقتصادی حلقے بنائے ہیں۔ شاید رقیبانہ کشاکش میں برتری پانے کے لئے چین نے امریکہ کے زیر اثر حلقوں میں اثر و رسوخ پیدا کیا۔ ایران شی جینگ پنگ کے منصوبوں کا مرکز ہے۔ بیجنگ اور تہران نے 2021 میں 25 سالہ طویل مدتی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بیجنگ کی حمایت کے تحت تہران برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل ہوا۔
فروری میں شی جن پنگ نے اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی کو بتایا کہ "چین امریکی یک قطبیت اور دھونس کے خلاف تہران کی مزاحمت کی حمایت کرے گا۔
ایران اور روس کے درمیان تعاون بنیادی طور پر ہتھیاروں کے شعبے میں ہے۔ ایران جلد ہی روس سے جدید سخوئی 35 لڑاکا طیارے اور حملہ آور ہیلی کاپٹر حاصل کرے گا۔ تہران کو ماسکو کی برآمدات عروج پر ہیں اور روس نے بھی ایران کے قدرتی گیس کے شعبوں کی ترقی کے لیے 40 بلین ڈالر مختص کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
اس انگریزی اخبار نے ایران کے جوہری پروگرام کی "تیز" پیش رفت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے اس کے پرامن ہونے پر سوال اٹھایا، جس پر تہران کے حکام نے ہمیشہ زور دیا ہے۔ دی گارڈین نے سیاسی تجزیہ کار روئل مارک گرشٹ (ڈیفنس آف ڈیموکریسی فاؤنڈیشن تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ کے ماہر) اور رے تاکیہ (کونسل آف فارن ریلیشن تھنک ٹینک کے محقق) کے حوالے سے لکھا: آج اسلامی جمہوریہ کی پوزیشن فاتحانہ ہے۔ وہ پابندیوں کے حصار کو توڑ چکا ہے اور اپنے طاقتور اتحادیوں کی مدد سے اس نے اپنی معیشت کو مستحکم کیا ہے اور دفاعی قوت کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب کہ ایٹم بم دسترس میں ہے!
انگریزی روز نامہ گارڈین نے آخر میں لکھا: ایران بالآخر 45 سال کی کوششوں کے بعد خطے کی "بڑی طاقت" بن چکا ہے۔ تہران پر پابندیاں لگا کر تنہا کرنے کی دھونس دھمکی مکمل طور پر ناکام رہی۔ اب اور اس وقت امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کو شدید اور خوفناک دشمنی (مزاحمت) کا سامنا ہے اور اس کے نتیجے میں وسیع تر جنگ سے بچنے کے لیے نئے سفارتی انداز اپنانے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔