ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نیویارک میں مذاکرات پر بات کرنے کا کوئی طے شدہ منصوبہ نہیں ہے تاہم ممکنہ بات چیت کو مسترد نہیں کرتے۔ ایران اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔صدر واضح انداز میں ایران کا موقف بیان کرچکے، امریکہ کے ساتھ کوئی دوطرفہ بات چیت نہیں ہوگی۔

مہر خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ایران کے خارجہ امور کی تازہ ترین پیشرفت اور مختلف علاقائی اور بین الاقوامی امور پر اپنے ملک کے موقف کی وضاحت کی اور صحافیوں کے سوالات کے جواب دیئے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ نیویارک کے بارے میں ناصر کنعانی نے کہا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور اور ویانا مذاکرات میں اعلی ایرانی مذاکرات کار علی باقری کنی دورہ امریکہ کے دوران صدر رئیسی کے ساتھ ہیں۔

نیویارک میں پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے امکان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، سینئر ایرانی سفارت کار نے کہا کہ اس سفر کے فریم ورک میں پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے بارے میں بات کرنے کا کوئی طے شدہ پروگرام نہیں ہے، تاہم عالمی اجلاس دو طرفہ دلچسپی کے، علاقائی مسائل اور کثیر الجہتی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کے لئے سیاسی ملاقاتوں اور  ملکوں کے حکام کے مابین سائڈ لائن مذاکرات کا ایک اچھا موقع ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ اجلاس کی سائڈ لائن پر جوہری معاملے اور پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات پر بات چیت ہو گی۔ کنعانی نے زور دے کر کہا کہ ایران قدرتی طور پر باہمی اور بین الاقوامی مفاد کے مسائل پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ہر موقع کا استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ایران نے کبھی بھی مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی ہے اور مذاکرات کو تنازعات کے حل کے لیے ایک مناسب، منطقی اور معقول راستہ سمجھتا ہے، اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے تعمیری اور معقول خیالات کے اظہار کے لیے ہر موقع کو بروئے کار لائیں گے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس سلسلے میں ایران کو حاصل انہی مواقع میں سے ایک ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا وزیر خارجہ یا اعلی مذاکرات کار علی باقری نیویارک میں امریکی حکام کے ساتھ ملاقات کریں گے؟ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نیویارک میں امریکی حکام کے ساتھ کوئی دو طرفہ بات چیت نہیں کریں گے جبکہ صدر مملکت واضح اور شفاف انداز میں ایران کا موقف بیان کرچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے جاری مذاکرات کے حوالے سے رابطے یورپی یونین کے رابطہ کار کے ذریعے جاری ہیں اور اس حوالے سے کوئی بھی پیش رفت اسی فریم ورک کے اندر ہوگی۔

ناصر کنعانی نے یہ بھی کہا کہ باقری کے سفر کا جوہری یا کسی اور مسئلے پر امریکی حکام کے ساتھ دو طرفہ بات چیت سے نہ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدر مملکت نیویارک کے دورے کے دوران علاقائی مسائل کے متعلق ایران کا موقف واضح کریں گے اور جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائڈ لائن پر دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے اور طے شدہ پریس کانفرنسوں میں شرکت کریں گے۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناصر کنعانی نے کہا کہ جنوبی قفقاز کے علاقے میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا صاف اور واضح موقف مختلف سطحوں پر کئی بار باضابطہ طور پر بیان کیا جا چکا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اپنی ہمسایہ پالیسی اور کم ترین ممکنہ وقت میں خطے کے بحرانوں کے حل کے لئے تعمیری مدد فراہم کرنے کی کوششوں کے تحت عملی میدان اور سیاسی جد و جہد میں داخل ہوا۔ 

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو چیز ان تنازعات کو حل کرنے میں مدد کر سکتی ہے وہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں سیاسی عزم کی موجودگی اور علاقائی فریم ورک کا استعمال ہے جو تنازعات کو ختم کرنے میں مدد دے گا اور ایران اپنی ہمسایہ پالیسی اور فریقین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر کشیدگی کے خاتمے اور تنازعات کے حل میں مدد کے لیے بدستور تیار ہے۔

حماس اور شام کے درمیان تعلقات کی بحالی اور اس سلسلے میں ایران اور حزب اللہ کے کردار کے بارے میں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ شامی حکومت کئی سالوں تک فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی اچھی طرح سے اور گرمجوشی کے ساتھ میزبانی کرتی رہی ہے اور گزشتہ کچھ برسوں کی صورتحال کے نتیجے میں بدقسمتی سے حماس اور شامی حکومت کے درمیان دیرینہ تعلقات کو بھی نقصان پہنچا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں کی پیش رفت نے ظاہر کیا ہے کہ شام سمیت تمام علاقائی فریقوں کے امن، استحکام اور سلامتی کے لئے اور ان تمام فریقوں کے لئے جو خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہم آہنگی کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں، سب سے بڑا خطرہ صہیونی حکومت ہے۔

کنعانی نے مزید کہا کہ علاقائی فریقوں اور خطے میں امن، استحکام اور سلامتی میں دلچسپی رکھنے والوں بشمول ایران اور حزب اللہ کی کاوشوں اور روس کی مثبت کوششوں سے حماس کے ساتھ شام کے تعلقات میں گرمجوشی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ مزاحمت و مقاومت کے گروہوں کے درمیان ہم آہنگی خطے کے امن و استحکام اور سلامتی کو مضبوط کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔