مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی امور کے ماہر سید رضا صدرالحسینی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے درمیان حالیہ اختلافات اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ موجودہ دور میں عالمی سطح پر اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ موجودہ بین الاقوامی نظام اب اپنی سابقہ غیرمستحکم اور غیرمتعین حالت سے نکل کر ایک واضح سمت اختیار کر رہا ہے، اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بتدریج ایک “نئے ساحل” کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس نئے نظام کی حقیقی نوعیت کا تعین فی الحال آسان نہیں، لیکن بڑی طاقتوں کے درمیان دفاعی اور اقتصادی میدانوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات، بالخصوص امریکہ کی جانب سے بعض ممالک کے ساتھ اقتصادی محاذ آرائی، تجارتی محصولات کے جھگڑے، پابندیوں میں وسعت اور قرارداد 2231 کے اختتام کے موقع پر روس و چین کی جانب سے ایران کے حق میں مؤقف اپنانا یہ سب اس ابھرتے ہوئے نئے نظام کی سمت اور ساخت کو مزید واضح کر رہے ہیں۔
صدرالحسینی نے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران کو چاہیے کہ وہ اپنی پوزیشن کو اس نئے عالمی نظم میں مزید مستحکم کرے۔ وہی ممالک مستقبل میں مؤثر کردار ادا کرسکیں گے جو موجودہ حالات کو درست طور پر پہچانیں، اس کے اجزاء کا تجزیہ کریں اور اپنی داخلی و خارجی صلاحیتوں کو تقویت دیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے پاس ایسے تمام عناصر موجود ہیں جو اسے اس نئے نظام میں ایک مؤثر اور مستقل کردار ادا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ ان میں انقلاب اسلامی کی فکری و نظری رہنمائی، ملکی دفاعی خودکفائی، داخلی ہم آہنگی، نمایاں جغرافیائی اہمیت، اور باصلاحیت نوجوان افرادی قوت شامل ہیں۔
صدرالحسینی نے مزید کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی جنگ دراصل بڑی طاقتوں کے درمیان پیدا ہونے والے اسی گہرے شکاف کی واضح مثال ہے۔ یہ جنگ اب اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے کہ چین نہ صرف واشنگٹن کے اقتصادی دباؤ کو برداشت کررہا ہے بلکہ عالمی تجارت کے اصولوں کو نئے سرے سے مرتب کر کے خود کو عالمی سپلائی لائن کے مرکزی کردار میں تبدیل کرچکا ہے، اور اپنی قومی کرنسی کو مستحکم کرکے ایک نیا عالمی نظام تشکیل دے رہا ہے جو امریکہ کی تاریخی برتری کے لیے ایک حقیقی چیلنج بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اپنی متحرک حکمرانی، جدید ٹیکنالوجی، بڑھتی ہوئی خودمختاری اور داخلی سطح پر مضبوط مقبولیت کے ذریعے عالمی نظام کے قواعد کو ازسرنو تشکیل دے رہا ہے۔
صدرالحسینی نے زور دیا کہ ان بڑی طاقتوں کے درمیان جاری مقابلے سے درمیانے درجے کی طاقتوں، خاص طور پر ایران جیسے ممالک کے لیے نئی عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کا موقع پیدا ہوا ہے۔ ایران کو چاہیے کہ وہ ایک طویل المدت حکمتِ عملی، جرات مندانہ اور فعال سفارتکاری، اور مضبوط داخلی معیشت کے ساتھ بروقت عالمی میدان میں قدم رکھے تاکہ اپنے مقام کو نئے عالمی نظام میں مستحکم کرسکے۔
آپ کا تبصرہ