10 جون، 2024، 7:32 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

ایران کے صدارتی امیدواروں کے بارے میں مزید جانئے

ایران کے صدارتی امیدواروں کے بارے میں مزید جانئے

شورائے نگہبان (گارڈین کونسل) کے رسمی اعلان کے بعد، آخر کار 14ویں دورہ صدارتی انتخابات کے حتمی امیدواروں کے طور پر 6 امیدواروں کو اہل قرار دیا گیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، گروہ سیاست - طیبہ بیات: آج شام (9 جون 2024اء) کو ایران کی شورائے نگہبان کے ترجمان ہادی طحان نظیف نے 14ویں صدارتی انتخابات کے لیے اہل امیدواروں کے نام وزارت داخلہ کو بھیجنے کا اعلان کیا جس کے بعد ملک کے الیکشن کمیشن کے ترجمان، محسن اسلامی نے ایک انٹرویو میں کہا: "مسعود پزشکیان، مصطفی پور محمدی، سعید جلیلی، علی رضا زاکانی، امیرحسین قاضی زادہ ہاشمی اور محمد باقر قالیباف" صدارتی انتخابات کے لیے اہل قرار پانے والے چھے امیدوار ہیں۔ 

ذیل میں صدارتی انتخابات کے لئے اہل قرار پانے والے امیدواروں کے سیاسی کیرئیر کا مختصر ریکارڈ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

1- مسعود پزشکیان

مسعود پزشکیان 19 ستمبر 1954 کو مہاباد میں پیدا ہوئے اور اس وقت تبریز، آذرشہر اور اسکو کے حلقے سے پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کی 8ویں، 9ویں، 10ویں اور 11ویں مدت میں نمائندگی کی تاریخ رکھتے ہیں، نیز 8ویں حکومت میں وزیر صحت کے طور پر کام کرنے کے علاوہ تبریز میں شہید مدنی ہارٹ سرجری ہسپتال کے سربراہ بھی رہے ہیں۔

انہوں نے تبریز یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے طب اور جنرل سرجری میں ڈاکٹریٹ کے ساتھ ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے ہارٹ سرجری میں اسپیشلسٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔

مسعود پزشکیان نے اس سے قبل 11ویں اور 13ویں ادوار حکومت میں صدارتی امیدوار بننے کے لیے دو مرتبہ رجسٹریشن کروائی تھی، جو کہ 2013ء میں اہل افراد کے ناموں کے اعلان سے پہلے آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی کے حق میں بیٹھ گئے۔ تاہم 2021ء میں وہ شورائے نگہبان کی جانب سے نا اہل قرار دئے گئے۔

2- مصطفی پور محمدی

 23 دسمبر 1959ء کو قم میں پیدا ہوئے، جو اب جامعہ روحانیت مبارز کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، صوبہ خوزستان میں انقلاب اسلامی کے پراسیکیوٹر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ہرمزگان، کرمانشاہ اور خراسان میں وزارت انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر شہرت حاصل کی ۔

محمود احمدی نژاد کے پہلے دور حکومت میں وزیر داخلہ کے طور پر جب کی حسن روحانی کے پہلے دور حکومت میں وزارت انصاف کی سربراہی کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔

 اسلامی انقلاب کے دستاویزی مرکز کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور چیئرمین رہنے کے علاوہ امام صادق (ع) یونیورسٹی میں لیکچرر رہے ہیں اور ایران کی پولیس فورس کے سربراہ کے طور پر گزشتہ سالوں کے دوران انتظامی اور تعلیمی امور میں بھرپور تجربے کے حامل رہے ہیں۔

انہوں نے قم اور مشہد میں اسلامی فقہ اور اصول (ڈاکٹریٹ کے مساوی) کی تعلیم حاصل کی۔ وہ سیاسی حقوق اور اسلامی سیاست کی نظریاتی بنیادوں کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے دینی حکومت کی نظریاتی بنیادیں، دینی نظارت، ارتداد اور خارجہ پالیسی پر بھی مقالات شائع کئے ہیں۔

3- سعید جلیلی

 1965ء میں مشہد میں پیدا ہوئے اور امام صادق (ع) یونیورسٹی سے سیاسیات میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ 

وہ دفاع مقدس میں خراسان نصر یونٹ کے ابزرور تھے اور 5 ویں کربلا آپریشن میں دائیں ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے جانباز ہو گئے۔ پچھلی دو حکومتوں کے دور سے وزارت خارجہ کے انسپکٹر جنرل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

80 کی دہائی کے آغاز میں، جلیلی نے رہبر معظم انقلاب کے ڈائریکٹر جنرل کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس دوران وہ رہبر انقلاب کی اسٹریٹیجک حکمت عملیوں کے نگران انچارج رہے۔ 9ویں حکومت میں وہ وزارت خارجہ میں یورپ اور امریکہ کے امور کے نائب بن گئے اور پھر سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔

جلیلی نے 20 13 کے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ 2016ء کے انتخابات میں شہید رئیسی کی مکمل حمایت کرتے ہوئے دستبردار ہوئے۔

وہ اس وقت سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل اور خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے رکن ہیں۔

4- علی رضا زاکانی

3 مارچ 1966ء کو شہر رے میں پیدا ہوئے اور اس وقت تہران کے 47ویں میئر کے طور پر کام کر رہے ہیں، اصول پسند تحریک کی معروف شخصیات میں سے ایک ہیں اور 7ویں، 8ویں، 9ویں اور 11ویں ادوار حکومت میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ 

13ویں حکومت میں انہیں تہران میں سماجی مسائل کے شعبے میں صدر کے معاون کے عہدے پر بھی تعینات کیا گیا۔

زاکانی تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کی فیکلٹی ممبر اور نیوکلیئر میڈیسن کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور امام خمینی ہسپتال اور ولیعصر میڈیکل کمپلیکس میں میڈیکل خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اپنی جوانی میں صوبہ تہران کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی تحریک کے انچارج بھی رہے اور انہوں نے ملک کی طلباء کی تحریک کے سربراہ کے طور پر بھی کام کیا، تاہم چار سال بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

وہ 7ویں پارلیمنٹ میں ایک سال تک بورڈ آف سپیکر کے رکن رہے اور اس کے علاوہ انہوں نے ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کمیشن میں بھی کام کیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی 11ویں مدت میں پارلیمنٹ کے ریسرچ سینٹر کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

صدارتی انتخابات کی 13ویں مدت کے دوران، زاکانی بھی صدارتی دوڑ میں شامل ہوئے لیکن آخر کار سید ابراہیم رئیسی کے حق میں بیٹھ گئے وہ ستمبر 2021ء سے تہران کے 47ویں میئر کے طور پر منتخب ہوئے۔

5- سید امیرحسین قاضی زادہ ہاشمی

12 اپریل 1971 کو فریمان میں پیدا ہوئے۔ 2021ء سے وہ 13ویں حکومت میں نائب صدر اور شہید فاؤنڈیشن کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہیں اور پارلیمنٹ میں چار بار نمائندگی کا ریکارڈ رکھتے ہیں وہ 11ویں پارلیمنٹ کے وائس سپیکر بھی رہے ہیں ۔

قاضی زادہ ہاشمی 8ویں، 9ویں اور 10ویں ادوار حکومت میں مشہد اور قلات کے نمائندے کے طور پر پارلیمنٹ میں بھی موجود رہے اور 9ویں اور 10ویں ادوار میں پریزائیڈنگ کمیٹی کے رکن رہے۔

وہ کان، ناک اور گلے کے ماہر ڈاکٹر ہیں اور سیاست میں آنے سے پہلے وہ سیمنان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے صدر تھے۔

 13ویں صدارتی انتخابات میں بھی امیدوار تھے اور چوتھے نمبر پر کامیاب رہے۔

6- محمد باقر قالیباف

  23 اگست 1961ء کو طرقبہ میں پیدا ہوئے اور اس وقت پارلیمنٹ میں تہران کے عوام کے نمائندے اور اسپیکر ہیں۔ ان کے کیریئر میں تہران کے میئر، پولیس چیف اور سپاہ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی کمانڈگی شامل ہے۔ رہبر معظم انقلاب کی طرف سے 1997 میں پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر مقرر کیے جانے کے بعد، انہوں نے پائلٹ کورسز مکمل کئے اور ساتھ ہی جیو اسٹریٹیجک کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کی۔

 قالیباف کے پاس بریگیڈیئر جنرل کا ملٹری رینک ہے اور وہ تعلیم کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، تہران یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی جغرافیہ کے فیکلٹی ممبر بھی ہیں۔

انہیں 9ویں، 11ویں اور 12ویں دور حکومت میں تین بار صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ ہے، محمود احمدی نژاد، اکبر ہاشمی رفسنجانی، مہدی کروبی، معین مصطفیٰ، علی لاریجانی اور محسن مہر علی زادہ کے مقابلے میں 4,95,827 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔

قالیباف نے 2013 کے انتخابات میں حسن روحانی، سعید جلیلی، محسن رضائی، علی اکبر ولایتی اور محمد غرضی کے مقابلے میں 6 لاکھ 77 ہزار 292 ووٹ حاصل کیے تھے اور 2016 کے انتخابات میں وہ ابراہیم رئیسی کی حمایت میں دستبردار ہوئے۔

News ID 1924583

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha