8 ستمبر، 2016، 12:35 AM

پاکستان کے ریاستی اداروں اور وہابی دہشت گردوں کے درمیان قریبی گٹھ جوڑکا انکشاف

پاکستان کے ریاستی اداروں اور وہابی دہشت گردوں کے درمیان قریبی گٹھ جوڑکا انکشاف

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انکشاف کیا ہے کہ بلا شبہ پاکستان میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑہے، مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ وہابی دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا ہے جس کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے جنگ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انکشاف کیا ہے کہ بلا شبہ پاکستان میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑہے، مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ وہابی دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا ہے جس کے بہت سے شواہد موجود  ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو پالیسی بیان آتا ہے، اب بھی بیان آیا ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہے، بلا شبہ ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہو گا،تاہم اس گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ اور  ہے جو وہابی  دہشت گرد تنظیموں اور ریاست کے اداروں کے درمیان ہے اور اس گٹھ جوڑ کے بہت سے شواہد سامنے بھی آگئے ہیں، ریاستی اداروں کے بعض لوگوں کا دہشت گرد تنظیموں سے گٹھ جوڑ ثابت ہو چکا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب ملا منصور مارا گیا تو اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھااور یہ اس گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے، ابھی تک دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا گٹھ جوڑ نہیں توڑا گیا،وفاقی وزیر داخلہ ریاستی اداروں اور دہشت گرد تنظیموں کے گٹھ جوڑپر بھی بیان صادر کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہابی دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں نے اسلام آباد میں اجلاس کیا، اگر گٹھ جوڑ نہ ہوتا تو وہ اسلام آباد آنے کی جرات نہ کرتے،کالعدم تنظیموں کو دوبارہ نہ اٹھنے دیا جائے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ریاست ناکامی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق پاکستان کی وفاقی حکومت وہابی دہشت گردرہنماؤں کو بھر پور تحفظ فراہم کررہی ہے جبکہ بعض کارروائیوں میں نچلے درجے کے وہابی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

News ID 1866766

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha