مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ طوفان الاقصی کو 80 دن گزرنے کے بعد تل ابیب حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حالات اس قدر پیچیدہ ہوگئے ہیں جس کا جنگ کے آغاز میں صہیونی حکام نے سوچا بھی نہ تھا۔
غزہ کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے والے صہیونی فوجی حکام نے کئی مرتبہ اپنے منصوبوں کے حیرانگی کا اظہار کیا ہے کیونکہ صہیونی فوج کے اہداف متضاد ہیں ایک طرف حماس سمیت مزاحمتی تنظیموں کو تباہ کرنا چاہتی ہے اور دوسری اپنے یرغمالیوں کی زندہ اور سلامت رہائی بھی چاہتے ہیں۔ غزہ کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں اہداف کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔
صہیونی فوج کو بیک وقت کئی محاذوں پر مقاومتی تنظیموں سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے جو صہیونی فورسز کے ڈراونا خواب بن چکا ہے۔
الجزیرہ نے ان محاذوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ رپورٹ پیش کی ہے
غزہ کے اندر جنگ
غزہ کے اندر کئی محاذوں پر جنگ کے بعد مقاومت نے بہترین انداز کے ساتھ اپنی پوزیشن مستحکم کی ہوئی ہے اور دشمن کے دانت کھٹے کردیے ہیں۔ مجاہدین نے غزہ کے باہر سے بھی صہیونی حملہ آوروں کو نشانہ بنایا ہے۔ صہیونی آبادیوں پر پے در پے میزائل حملے کئے ہیں جس کا سلسلہ آج تک نہیں رکا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ تین مہینے گزرنے کے باوجود مقاومتی تنظیمیں مکمل آمادہ ہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوگئی ہیں۔ صہیونیوں کے مقابلے میں ان کا عزم اور حوصلہ کم نہیں ہوا ہے۔
چنانچہ یحیی السنوار نے کہا ہے کہ مقاومت پہلے سے زیادہ پیچیدہ کاروائیاں کررہی ہیں اور صہیونی فوج کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔
غزہ کی جنگ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ گذشتہ ایک ہفتے کے اندر مجاہدین نے کئی مقامات پر صہیونی فورسز پر گھات لگا کر حملے کئے ہیں۔ جمعہ اور ہفتے کے دن غزہ کے مرکز اور جنوب میں مختلف واقعات میں 14 صہیونی افسران اور فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔
مختلف مقامات پر مجاہدین نے صہیونی مرکاوا ٹینکوں کو انتہائی نزدیک سے نشانہ بنایا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کی جنگ ایک غیر متعادل جنگ نہیں بلکہ دو ملکوں کی افواج کی جنگ ہے اگرچہ امریکہ اور مغربی ممالک کی امداد کی وجہ سے اسرائیلی ہتھیاروں کا فلسطینی مجاہدین کے ہتھیاروں سے کوئی موازنہ نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ میں صرف اسلحہ اور ہتھیار کافی نہیں بلکہ نفسیاتی طاقت اور عزم اور حوصلہ بھی لازمی ہے جو کہ فلسطینی مجاہدین میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
غرب اردن
اگرچہ فلسطین کے اندر، غزہ اب بھی صہیونی دشمن کے ساتھ گرم ترین جنگی علاقہ ہے، لیکن مغربی کنارے کی پیش رفت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک ایسی جگہ جہاں فلسطینی جنگجو روزانہ دشمن کی فوجوں کے ساتھ مختلف محوروں میں برسرپیکار ہوتے ہیں اور دشمن کو شدید جانی نقصان پہنچایا ہے۔ 20 دسمبر کو فلسطینی عسکریت پسندوں نے مغربی کنارے کے شمال اور مرکز کے چار شہروں میں صہیونی فوجیوں کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں دشمن عناصر کے خلاف فلسطینی نوجوانوں کے مسلح حملے روزانہ کی بنیاد پر جاری رہتے ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق نابلس کے شمال میں واقع چوکی پر صہیونی فوجیوں کے خلاف کارروائی تھی۔
اس کے علاوہ فلسطینی جنگجوؤں نے قلقیلیہ کے علاقے مرج میں صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا اور مغربی بیت لحم کے داخلی دروازے پر دشمن کی فوج کی طرف ایک دھماکہ خیز بم پھینکا۔ 22 دسمبر کو قابض افواج اور فلسطینیوں کے درمیان 10 مختلف محوروں میں زبردست تصادم ہوا۔ مغربی کنارے میں روزانہ اوسطاً 8 جھڑپیں ہوتی ہیں جس نے صہیونی فوج غزہ سے توجہ ہٹاکر اس علاقے پر مرکوز کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے کے بارے میں متعدد انتباہات صیہونیوں کو غزہ کے محاذ پر موثر توجہ مرکوز کرنے سے روکتے ہیں۔
شمالی محاذ اور حزب اللہ کا خطرہ
شمالی سرحدوں پر حزب اللہ روز بروز اپنی کارروائیوں میں تیزی لا رہی ہے اور صرف ایک ہفتے کے دوران اس کے جنگجوؤں نے لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر صہیونی دشمن کے اہداف کے خلاف درجنوں کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں صہیونی دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بڑی تعداد میں فوجی ہلاک ہوئے۔
صرف ایک ہفتے میں یعنی 16 سے 22 دسمبر تک حزب اللہ نے صہیونی اہداف پر کل 65 حملے کیے، جن میں سے ہر ایک کی نوعیت اور مقصد مختلف تھا۔ ذرائع نے صہیونی دشمن کے خلاف میدان جنگ میں اعلی تباہ کن طاقت کے حامل حزب اللہ کے نئے گائیڈڈ میزائلوں کی آمد کی اطلاع دی ہے۔ لبنانی مزاحمت نے 18 دسمبر کو حنیتا کے علاقے میں صہیونی فوج کے آئرن ڈوم ایئر ڈیفنس سسٹم پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ پہلا موقع ہے جب اس جنگ میں حزب اللہ نے آئرن ڈوم سسٹم کو نشانہ بنایا۔
علاوہ ازین گزشتہ چند دنوں کے دوران حزب اللہ نے دشمن کی فوج کے ٹھکانوں کے خلاف زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کیا ہے اور مقبوضہ فلسطین کے شمال میں لبنانی مزاحمت کاروں کے پے در پے حملے روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔
جنوب سے یمن کے حملے
نومبر سے 23 دسمبر تک ایک مہینے کے اندر آبنائے باب المندب کے قریب متعدد مرتبہ حملوں کے واقعات رونما ہوئے جن میں مقبوضہ فلسطین جانے والے مال بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تمام کارروائیاں یمنی مسلح افواج نے کیں۔ یمن نے پہلے اعلان کیا تھا کہ جب تک کہ غزہ پر صیہونی حکومت کی جارحیت بند نہیں ہو جاتی اور خوراک اور ادویات خطے میں داخل نہیں ہو جاتیں وہ کسی بھی صیہونی یا بین الاقوامی جہاز کو بحیرہ احمر سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
یمنی مسلح افواج نے قابض حکومت کے ٹھکانوں پر بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور ڈرونز کے متعدد حملوں کے ساتھ الاقصی طوفان کی لڑائی میں براہ راست شرکت کا اعلان کیا تھا۔ یمنی میزائل اور ڈرون بھی ایلات کی بندرگاہ پر پہنچ گئے۔ صیہونی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ یمن اس حکومت کے خلاف ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے اور فوجی خطرات کے علاوہ صیہونی حکومت کی معیشت بھی بحیرہ احمر کی بندش کے سائے میں ایک نئے چیلنج سے دوچار ہوگئی ہے۔
خطے میں امریکی مفادات اور تنصیبات پر حملے
مختلف سمتوں سے قابض صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر حملوں کے علاوہ طوفان الاقصی کے آغاز کے ساتھ ہی ہم خطے بالخصوص عراق اور شام میں امریکی اہداف اور اڈوں کے خلاف عراقی مزاحمت کے مسلسل حملوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ عراق کی اسلامی مزاحمت نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے عوام اور مزاحمت کی حمایت کے لیے اور فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکہ کی براہ راست شرکت کی وجہ سے امریکی اڈوں پر کے حملے غزہ پر جارحیت بند ہونے تک جاری رہیں گے۔
مقاومت اسلامی عراق نے ابتدائی طور پر اپنے حملوں کو امریکی اڈوں تک محدود رکھا تھا تاہم حالیہ دنوں میں دشمن کے ساتھ جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی ہے اور اس نے بحیرہ روم میں صیہونی حکومت کے بحری ٹھکانوں اور ایلات کی بندرگاہ کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔
آج ہم غزہ کی جنگ کے دوران جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صیہونی حکومت کے خلاف کثیر محاذ جنگ کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے یہ حکومت خوفزدہ ہے لیکن اگر صیہونی حکام فوری طور پر غزہ کے خلاف اپنی جارحیت سے باز نہ آئیں تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالات ایسے نہیں رہیں گے اور جنگ دوسرے محاذوں تک پھیلنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت اپنی زمینی افواج کو بھاری نقصانات اور غزہ میں اپنے فوجی افسروں اور کمانڈروں کی مسلسل ہلاکتوں کے بعد جنگ جاری رکھنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی اور قیدیوں کے تبادلے کی متعدد تجاویز پیش کر رہی ہے۔ انہوں نے اس کو جنگ کے تیسرے مرحلے کا نام دیا ہے۔
جنگ کے تیسرے مرحلے کا مطلب غزہ کی دلدل سے آہستہ اور غیر اعلانیہ عقب نشینی ہے۔