غزہ کی پٹی میں غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کے تناظر میں دنیا بھر میں فلسطین کے دیگر حامیوں کی طرح اسلامی ممالک بھی اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: فلسطینی مزاحمت کے سرپرائز آپریشن "الاقصی طوفان" کے بعد غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حملے کے آغاز کے بعد سے اسلامی ممالک کے عوام غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے انتہائی وحشیانہ فوجی حملوں جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں فلسطین کے دیگر حامیوں کی طرح اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک میں شامل ہو گئے۔

اس طرح نہ صرف اسرائیلی اشیا اور برانڈز بلکہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی صیہونی حکومت کی حمایت کی وجہ سے مختلف مغربی مصنوعات اور برانڈز بھی ان اچانک مقبول پابندیوں کا واضح اور ٹھوس ہدف قرار پاچکے ہیں۔

ذیل میں ہم اس سلسلے میں مختلف اسلامی ممالک اور عوامی قوتوںکی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں:

مصر

مصر اور اردن میں اسرائیلی-مغربی برانڈز کا کافی اثر و رسوخ رہا ہے، لیکن غزہ جنگ اور بائیکاٹ مہم نے اس عمل کو نشانہ بنایا۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس مہم کے ذریعے جن کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ان کے اسرائیل نواز موقف تھے یا ان کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی یا سرمایہ کاری کے تعلقات تھے۔

تمام اسلامی ممالک میں جیسے جیسے یہ مہم پھیل گئی بائیکاٹ کا مطالبہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر بھی شدت پکڑنے لگا۔ یوں درجنوں اسرائیلی یا اس سے وابستہ کاروبار اور مصنوعات کو بلیک لسٹ کر دیا گیا اور صارفین کو ان ممالک میں مقامی متبادل تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی۔

مصر میں کیونکہ پابندیوں نے لوگوں کے سڑکوں پر آنے کے امکانات کو کم کر دیا ہے، فلسطینی حامیوں نے سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کو ہی ان کی آواز دنیا تک پہنچانے کا بہترین یا واحد طریقہ بتایا ہے۔

قاہرہ کے رہائشی 31 سالہ مصری شہری "رحام حمید" نے اس حوالے سے کہا: اگر میں جانتا ہوں کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا، تب بھی مختلف قوموں کے شہریوں کی طرح یہ کم سے کم ہم کر سکتے ہیں۔ 

ان کے بقول انہوں نے امریکی فاسٹ فوڈ چینز اور مصر میں مقیم اسرائیل اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی کچھ صفائی کی مصنوعات کو اپنی شاپنگ بائیکاٹ کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ مصر میں بعض اسرائیلی اور امریکی فاسٹ فوڈ کمپنیوں کے بائیکاٹ میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ میکڈونلڈز کمپنی اس حوالے سے ایک بیان جاری کرنے پر مجبور ہوگئی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ تنازعات کے حوالے سے اپنے موقف کے بارے میں غلط معلومات سے "مایوس" ہوئی ہے، اور اس چین اسٹور کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔

یہاں تک کہ مصر میں میکڈونلڈ کی شاخوں کے مصری مالک نے اعلان کیا کہ اس نے اس ملک کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے غزہ کو تقریباً 20 ملین مصری پاؤنڈ (650,000 ڈالر کے برابر) عطیہ کیے ہیں۔ لیکن نہ تو یہ اعلان اور نہ ہی یہ بیان میکڈونلڈ کی شاخوں کے دروازے مصری عوام کے لیے پہلے کی طرح کھلے رکھ سکے۔

سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق مصر میں امریکی KFC ریسٹورنٹ چین کی شاخوں نے 7 اکتوبر کے بعد بے مثال خاموشی کا تجربہ کیا ہے۔ یہ میکڈونلڈز کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ریسٹورنٹ چین ہے جس کی مختلف ممالک میں دسمبر 2019 تک 22,000 سے زیادہ شاخیں ہیں۔

اردن

اردن میں میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیکاٹ کے حامی بعض اوقات میکڈونلڈز اور سٹاربکس اسٹورز میں داخل ہوتے ہیں تاکہ ان صارفین کی حوصلہ افزائی کی جا سکے جن کے پاس نقد رقم نہیں ہے کہ وہ کہیں اور جائیں۔ اس کی فوٹیج جو دکھائی دیتی ہے کہ اسرائیلی فوج کے اہلکار ایک مشہور برانڈ کے صابن سے لانڈری دھو رہے ہیں اردن اور کچھ عرب ممالک میں وائرل ہو گئی ہے، جس سے ناظرین اس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

احمد الزارو جو دارالحکومت امان کی ایک بڑی سپر مارکیٹ کے ایک کیشیئر ہیں، جہاں گاہک اس کے بجائے مقامی برانڈز کا انتخاب کر رہے تھے، کہا: "کوئی بھی ان مصنوعات کو نہیں خریدتا۔

کویت

سوشل میڈیا کی اطلاع کے مطابق کویت سٹی میں "اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور کے ایف سی" برانڈز کے سات اسرائیلی-امریکی اسٹورز اپنے سابقہ ​​گاہکوں سے تقریباً خالی ہوگئے ہیں۔

اس ملک میں روایتی طریقوں سے سڑکوں اور شاہراہوں پر بل بورڈ لگا کر اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، کویت سٹی میں ایک چار لین والی شاہراہ کے ساتھ، دیوہیکل بل بورڈز پر خون میں بھیگے بچوں کی پٹیوں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں، جن کے ساتھ مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی مصنوعات اور برانڈز کو "نا" کہیں۔

ان بل بورڈز میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا آپ نے آج اسرائیلی پروڈکٹ خرید کر بچے کو مارنے میں مدد کی؟ ایک کویتی کارکن مشاری الابراہیم نے میڈیا کو بتایا ہے کہ مغرب کی طرف سے غزہ پر اسرائیل کے حملے کی حمایت کی وجہ سے "کویت میں اسرائیل پر پابندیوں کو مضبوط کیا گیا ہے۔

ان کے بقول، یہ کویتی باشندوں کے درمیان پیدا ہونے والی ایک ذہنی تصویر ہے کہ مغربی نعرے اور جو کچھ انسانی حقوق کے بارے میں کہتا ہے وہ ہم پر لاگو نہیں ہوتا۔

کویت میں میکڈونلڈ کی برانچ، جس کے مالک کویتی ہیں، نے ایک بیان میں کہا ہت کہ ایک علیحدہ ادارے کے طور پر اس نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے 160 ہزار ڈالر سے زیادہ کا عطیہ دیا ہے اور سوشل نیٹ ورکس پر اپنے پیج پر دعویٰ کیا ہے کہ وہ "فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے!

مراکش

مراکش کے دارالحکومت رباط میں سٹاربکس برانچ کے ایک کارکن نے اعداد و شمار کا حوالہ دئے بغیر میڈیا کو بتایا کہ اس ہفتے صارفین کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

بحرین اور قطر کا اسرائیلی ٹیکنالوجیز کا بائیکاٹ

منامہ، بحرین میں بہت سے ذہین نوجوان، دوسرے ممالک کی طرح، اسرائیل کے بائیکاٹ مہم کے میدان میں ٹیکنالوجیز لائے۔ ان نوجوانوں نے براؤزر ایکسٹینشنز، مخصوص ویب سائٹس اور اسمارٹ فون ایپس کا استعمال کیا جو ممنوعہ اسرائیلی مصنوعات کو آسانی سے شناخت اور متعارف کرواتے ہیں۔

فلسطینی شائقین نے ٹک ٹاک اور فیس بک پر یہودی پروڈیوسرز اور تاجروں کی قائم کردہ مصنوعات شیئر کی ہیں۔

قطر میں بھی نوجوانوں نے یہی طریقہ استعمال کیا اور اس ملک میں میکڈونلڈ کی برانچ کے بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کے عمل کو مضبوط بناتے ہوئے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس نے غزہ کی امداد کے لیے 275 ہزار ڈالر ادا کرنے کا عہد کیا ہے اور یہ اسرائیل میں سرگرم شاخوں سے الگ ہیں۔

ترکی

فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی ترکی میں فلسطینی کارکنوں اور حامیوں کی سیاسی اور ثقافتی تقریب کا حصہ بن چکی ہے۔ 

موجودہ جنگ میں ترکی کے کئی ریستورانوں میں کوکا کولا اور نیسلے کی مصنوعات کو ان کے مینو سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 

درحقیقت، اس ماہ کے آغاز میں، ترک پارلیمنٹ نے دو امریکی اسرائیلی کمپنیوں کوکا کولا اور نیسلے کی مصنوعات کو ملک کے ریستورانوں سے ہٹا دیا تھا۔

انڈونیشیا

انڈونیشیا میں "اسلامی علماء کی سپریم تنظیم" نے غزہ پر اسرائیل کے وسیع اور شدید حملوں کے آغاز کے بعد ایک فتویٰ جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انڈونیشیا کے مسلمانوں کو فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے اور اسرائیل کی "جارحیت" کی حمایت کرنا حرام ہے۔

تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنا یا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی حمایت کرنے والے لوگوں کی مدد کرنا ممنوع ہے۔

تنظیم نے مسلم کمیونٹی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسے کاروباروں کے ساتھ خرید و فروخت جیسے لین دین سے حتی الامکان پرہیز کریں جو اسرائیل کی جارحیت اور صیہونی سرگرمیوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔

اس کونسل نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ملائیشیا کی حکومت اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سفارت کاری میں حصہ لے کر غزہ کے عوام کی مدد کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے اور ان پر زور دے کر اسرائیل پر جنگ بند کرنے کے لیے اجتماعی دباؤ ڈالے۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈونیشیا کے بہت سے لوگوں نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے ہوئے اس مذہبی ہدایت کا خیر مقدم کیا۔

اگرچہ انڈونیشیا کے لوگوں کی بہت سی اشیائے خوردونوش درآمد کی جاتی ہیں، لیکن جب وہ سپر مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز سے خریدتے ہیں تو ان میں سے اکثر کے پاس ممنوعہ اشیا کی فہرست ہوتی ہے، جسے وہ خریدنے سے سنجیدگی سے انکار کرتے ہیں۔

انڈونیشیا کے لوگوں کے درمیان سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فہرست میں درج ذیل برانڈز شامل ہیں: میک ڈونلڈز، کے ایف سی، برگر کنگ، پیزا ہٹ، کوکا کولا، پیپسی، نیسلے، اسٹار بکس، پوما، ہیولٹ پیکارڈ، یونی لیور، AXA، سیمنز وغیرہ۔

ملائیشیا

ملائیشیا کے لوگ جو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے مشہور ہیں، غزہ جنگ کے دوران انڈونیشیا کے لوگوں کی طرح فلسطین کی حمایت کے لیے متعدد اور بڑے مظاہرے کیے حتیٰ کہ اس ملک کی حکومت نے ایک ہفتے کو "فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہفتے" کا نام دیا۔

جنگ کے دوران اسرائیلی کمپنیوں کی فہرست جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں، سوشل میڈیا پر شائع کی گئی اور پبلشرز نے ملائیشیا سے اسرائیل کے خلاف بے مثال بائیکاٹ میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈونیشیا کی طرح ملائیشیا میں KFC اور McDonald's کی برانچوں کو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں صارفین کی تعداد میں 20 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 

میکڈونلڈز کے خلاف ملائیشیا کے باشندوں کی مخالفت اس قدر شدید تھی کہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی کمپنی نے ایک بیان شائع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ ادارہ 100% ملائشیا میں مسلمانوں کی ملکیت ہے اور 10 لاکھ رنگٹ (S$286,000) فلسطین ہیومینٹیرین فنڈ میں عطیہ کیے گئے ہیں۔ 

ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی ایک ٹویٹ میں ملائیشیا سے اسرائیلی کمپنیوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا: اگر دنیا کے 1.7 بلین مسلمانوں میں سے ایک چوتھائی اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک میں شامل ہو جائیں تو اس کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا جائے ہوگا۔

نتیجہ

غزہ کے نہتے اور محصور عوام کے خلاف اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے دوران اسلامی ممالک میں فلسطینی کارکنوں اور حامیوں کی طرف سے اسرائیل اور امریکہ سے متعلق بہت سی کمپنیوں اور برانڈز کو بڑے پیمانے پر پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سٹاربکس ان چین اسٹورز میں سے ایک ہے جس میں اسرائیلی-امریکی مالکان ہیں، اس کمپنی نے میکڈونلڈز  کے ساتھ اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا سامنا کیا ہے۔

ان دونوں برانڈز کی مصنوعات پر پابندی اتنی زیادہ شدید تھی کہ اس نے ان کمپنیوں کے مالکان کو غزہ جنگ کے خلاف اس مسئلے کا اعلان کرنے پر مجبور کردیا۔ یہاں تک کہ مسلم ممالک میں دیوالیہ پن کے مرحلے تک نہ پہنچنے کے لیے، سٹاربکس نے مشرق وسطیٰ میں اپنی شاخوں کے آپریشن کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان شائع کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ "کمپنی ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اور یہ افواہیں جھوٹی ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت یا فوج کی حمایت کرتی ہے۔

یہ موقف اس لیے لیا گیا کیونکہ سٹاربکس چین کے مالکان میں سے ایک نے پہلے کہا تھا کہ اس نے اسرائیلی فوج کو مفت کھانا دیا ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی کمپنی نے تردید کی تھی، لیکن اس خبر نے فلسطینی حامیوں بالخصوص نوجوانوں کو مزید پرعزم بنا دیا اور اس کمپنی کی مصنوعات کو اسلامی ممالک میں اس کے چین سنٹرز میں بائیکاٹ کا سامنا رہا۔

یہ اس وقت ہے جب سٹاربکس نے 7 اکتوبر سے پہلے اپنی ماہانہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ اسے اس سال کی چوتھی سہ ماہی میں غیر معمولی ترقی کی توقع ہے لیکن مسلم ممالک میں اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ نے اس توقع پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

مصری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق : "سیم السادات"، TBS ہولڈنگ کے بانیوں میں سے ایک نے مصر میں Starbucks اور McDonald's کے فراہم کنندہ، نے ان مراکز کے صارفین کی طرف سے مانگ میں تقریباً 50 فیصد کمی کی تصدیق کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں بالخصوص اسلامی ممالک میں اسرائیلی امریکی اشیا اور برانڈز کے خلاف عالمی مہم ایک کامیاب عمل سے گزری ہے۔
 مصر میں میکڈونلڈ کے دفاتر کے ایک ملازم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مغربی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اکتوبر اور نومبر میں اس سٹور کی فروخت میں کم از کم 70 فیصد کمی آئی ہے۔ ان کے مطابق اس اسٹور کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ، گزشتہ ماہ کے دوران مسلم ممالک میں بائیکاٹ کی تحریکوں میں تعاون کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مصر اور اردن جیسے ممالک کہ جن کی حکومتوں نے عشروں قبل اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، نے بھی پابندیوں کے عمل کا سخت تجربہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاغذوں پر ہونے والے معاہدے لوگوں کو فلسطین کی حمایت سے روک نہیں سکے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ادوار میں اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم موجودہ دور کی طرح پرجوش نہیں تھی۔ 

مثال کے طور پر مصر میں بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیاں (بی ڈی ایس) تحریک کے رکن حسام محمود نے مصری میڈیا کو بتایا کہ عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر مصر میں اسرائیل کی گزشتہ بائیکاٹ مہموں کا دائرہ کم تھا، لیکن موجودہ مہم زیادہ خوش آئند ہے۔

فلسطین کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کی وجہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے اس طرح بیان کیا: "غزہ کی پٹی کے خلاف جارحیت کی مقدار بے مثال ہے۔ اس لیے سڑکوں پر اور یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ردعمل بے مثال ہیں۔"

آخری بات یہ ہے کہ بہت سی امریکی یا اسرائیلی کمپنیوں یا اسرائیل کے حامیوں کو بھی اسلامی ممالک میں پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں "KFC، Pizza Hut، Burger King کے علاوہ Coca-Cola، Pepsi، Vicks اور Puma" جیسے برانڈز شامل ہیں۔

بائیکاٹ کرنے والوں کو امید ہے کہ اقتصادی اثرات کے علاوہ یہ پابندیاں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل کشی کی روک تھام کے حوالے سے عالمی برادری کی آگاہی اور بروقت کارروائی میں نمایاں اثر ڈالیں گی، اسی وجہ سے اسلامی ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں فلسطین کے حامی بھی اسرائیلی اشیا اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔