مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے پیر کی شب تہران میں ہونے والے آستانہ عملی کے ضامن ممالک کے سرابراہی اجلاس سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی قابض افواج کی ناجائز موجودگی شام اور خطے کو غیر مستحکم بنانے والے عامل میں تبدیل ہوگئی ہے۔ امریکہ اپنے غیر قانونی فوجی اڈے بڑھانے کے ساتھ خطے کے قدرتی وسائل اور خاص طور پر شام کا تیل لوٹنے میں مصروف ہے اور میں تاکید کرتا ہوں کہ لازمی ہے کہ اس کی افواج سوریہ سمیت پورے خطے سے جلد از جلد خارج ہوجائیں۔
صدر رئیسی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ایران کی دعوت قبول کرنے پر روس کے صدر پیوٹن اور ترکی کے صدر اردوغان کا شکریہ ادا کیا۔
آستانہ عمل نے ایک پرامن فریم ورک کے طور پر شام کے بحران کے حل کے لئے بہت اچھے نتائج حاصل کئے ہیں
رئیسی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں شام کے بحران کے حل کے لئے ایک پرامن فریم ورک کے طور پر آستانہ عمل نے اب تک بہت اچھے نتائج حاصل کئے ہیں جبکہ ان کی حفاظت کر کے انہیں فروغ دینے کی ذمہ داری ایران، ترکی اور روس کے دوست ہمسایہ ممالک پرعائد ہوتی ہے جو اس عمل کے ضامن ہیں۔
انہوں کہاکہ سب سے پہلے شام کے مسئلے پر تینوں ملکوں کے بنیادی اور تغیر ناپذیر مشترکہ اصولوں پر زور دوں گا، یعنی ملکی سالمیت اور وحدت کا تحفظ، عرب جمہوریہ شام کے قومی اقتداراور خودمختاری کا احترام اور اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ صرف اور صرف اس کے عوام کے ہاتھوں اور کسی بیرونی مداخلت کے بغیر خالص شامی گروہوں کے باہمی مذاکرات کے ذریعے۔
آج تقریباً گیارہ سال گزر جانے کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ شام کے مسئلے کا واحد راہ حل سیاسی حل ہے جبکہ عسکری اقدام نہ صرف مسئلے کو حل نہیں کرے گا بلکہ صورتحال کو مزید بگاڑ دے گا۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ کے تمام شہدا اور ان میں سر فہرست شہید جنرل قاسم سلیمانی کی تجلیل کرتے ہیں
ایرانی صدر نے مزید کہاکہ ہم سب آستانہ عمل کے ضامن کے طور پر ماضی سے ہی انجام شدہ سمجھوتوں کے دائرے میں سیاسی راہ حل کی حمایت کر رہے ہیں اور متفقہ طور پر پورے خطے میں دہشت گردی اور اس کی تمام شکلوں کے خلاف جنگ کے عزم پر زور دیتے آ رہے ہیں اور اب بھی اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ آستانہ عمل کے ضامن ممالک کے سربراہان کا عزم گزشتہ سمجھوتوں کو آگے بڑھانے پر قائم ہے۔
آج کل ایسے حالات میں فخر کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ جب اس راہ میں بہت سی فداکاریاں انجام دی گئی ہیں۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے تمام شہدا اور ان میں سر فہرست شہید جنرل قاسم سلیمانی کو خراج تحسین پیش کروں۔
ہر قسم کی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ شام کی عوام اور حکومت کے لئے اپنی حمایت کو مزید قوت کے ساتھ جاری رکھیں گے
رئیسی نے کہاکہ ہم اس وقت ایسے حالات میں آستانہ عمل کا سربراہی اجلاس کر رہیں کہ جب یکطرفہ پابندیوں اور خاص طور پر امریکہ نے شام کی عوام پر بے تحاشا دباو ڈالا ہوا ہے اور ان سے معمول کی زندگی کے امکان کو چھین لیا ہے۔ اب سب کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ جو فریق کامیاب نہیں ہوسکے شام میں ناامنی پھیلا کر اور اس کے استحکام کو ختم کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت دوسرے طریقوں اور پابندیوں اور دباو کی سیاست کے ذریعے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنا چاہتےہیں۔
یکطرفہ پابندیاں اور معاشی دہشتگردی، بین الاقوامی قوانین اور ملکوں کی سالمیت و اقتدار کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران تمام اقوام عالم اور خاص طور پر شامی قوم کے خلاف ہر قسم کی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ شام کی عوام اور حکومت کے لئے اپنی حمایت کو مزید قوت کے ساتھ جاری رکھے گا۔
انسان دوستانہ امداد کو سیاسی اہداف کے حصول سے مشروط کرنا شام کے مسائل حل کرنے کے عمل کو مختل کردے گا
داخلی طور پر بے گھر ہونے والے اور شامی پناہ گزینوں کا مسئلہ بہت اہم معاملہ ہے اور خطے کے ملکوں اور عالمی برادری کو چاہئے کہ بے گھر ہونے والوں کی اپنے گھروں اور وطن واپسی میں مدد کریں۔ ہم اس سلسلے میں شام کے پڑوسیوں کی مشکلات اور پریشانیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس معاملے میں ہر قسم کو کوششوں اور اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بعض مغربی ممالک اور غاصب صہیونی ریاست کی جانب سے انسان دوستانہ امداد کو سیاسی اہداف کے حصول سے مشروط کرنا اس عمل کو مختل کردے گا اور اس معاملے میں عالمی برادری سے توجہ اور سنجیدہ اقدام کے خواہاں ہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ شام کی علاقائی سالمیت اور حدود کی خلاف ورزی امن برقرار کرنے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قطعاً مددگار نہیں ہے
شام کے ہمسایہ ممالک سے ملے ہوئے سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کے قیام کا واحد راستہ قوت کے ساتھ اس ملک کی مسلح افواج کی سرحدوں پر موجودگی اور ہمسایہ حکومتوں سے تعاون ہے۔ متعدد تجربے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شامی حدود کے اندر عسکری اقدامات اور سرحدی خلاف ورزیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی مدد نہیں کی ہے۔ لہذا شام کی علاقائی سالمیت، قومی اقتدار اور خودمختاری کا احترام ایک ناقابل تردید اصول ہے۔ متحد، خودمختار اور غیر ملکیوں کی ناجائز موجودگی سے خالی ایک شام نہ صرف اس ملک کے عوام کی سالوں کے رنج و غم سہنے کے بعد امن و سکون کی جانب پلٹنے کا سبب بنے گا بلکہ اس کے ہمسایوں کے استحکام اور امن میں بھی مددگار ہوگا۔ امریکہ کی قابض افواج کی ناجائز موجودگی شام اور خطے کو غیر مستحکم بنانے والے عامل میں تبدیل ہوگئی ہے۔ امریکہ اپنے غیر قانونی فوجی اڈے بڑھانے کے ساتھ خطے کے قدرتی وسائل اور خاص طور پر شام کا تیل لوٹنے میں مصروف ہے اور میں تاکید کرتا ہوں کہ لازمی ہے کہ اس کی افواج سوریہ سمیت پورے خطے سے جلد از جلد خارج ہوجائیں۔
خطے اور دنیا میں عدم استحکام پیدا کرنے اور صلح و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے نتائج صہیونی غاصب حکومت کو بھگتنا ہوں گے
اسی طرح ہم شام کے اندر غاصب صہیونی حکومت کی جارحیت کا دائرہ بڑھنے اور ایئرپورٹس اور بندرگاہوں سمیت اس ملک کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ سب پر عیاں ہوگیا ہے کہ اس رجیم نے اپنی بقا کو ہمارے خطے جارحیت اور ناامنی کے ساتھ جوڑا ہوا ہے اور جولان کے علاقے پر ناجائز قبضے سمیت اس قسم کے اقدامات شام کی علاقائی سالمیت و اقتدار کی خلاف ورزی اور خطے اور دنیا کو غیر مستحکم کرنے کا سبب اور صلح و امن کو خطرے میں ڈال دے گا۔ البتہ قابض رجیم کو اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور محترم سیکریٹری جنرل کو چاہئے اس سے پہلے کہ غاصب صہیونی رجیم کی جارحیتیں سلامتی کا ایک بہت بڑا مسئلہ بنے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
آخر میں امید کرتا ہوں کہ اس اجلاس میں تعمیری اور مفید فیصلے کئے جائیں کہ جن کے سائے میں شام میں صلح کے عمل کو دوام اور تقویت دیکھنے کو ملے اور اس کی شرافت مند عوام کی پائیدار سعادت کا مشاہدہ کریں۔