مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:2 جنوری کو سپاہ پاسداران انقلاب کی ذیلی شاخ القدس فورس کے سابق سربراہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی پانچویں برسی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو 2 جنوری 2020 جمعہ کے دن علی الصبح بغداد ائیرپورٹ پر امریکی ڈرون طیارے نے میزائل حملے میں شہید کردیا۔ شہید جنرل سلیمانی کی برسی کی مناسبت سے مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ کی تیسری قسط پیش خدمت ہے۔
امام خمینیؒ کے انقلاب اسلامی کے آغاز سے ہی عالمی سطح پر ان کا پیغام یہی تھا کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے خطے سے غیر ملکی طاقتوں کا انخلا اور ناامنی کے اسباب کا خاتمہ ضروری ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی، جو امام خمینیؒ اور رہبر معظم کے مکتب میں تعلیم یافتہ تھے، اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ خطے میں امن و استحکام قائم کرنے کے لیے ایک مضبوط مزاحمتی طاقت کی ضرورت ہے جو عدم استحکام پیدا کرنے والے چیلنجز کا سامنا کر سکے۔
جنرل قاسم سلیمانی پہلے فوجی کمانڈر تھے جنہوں نے شام اور عراق کی حکومتوں کی درخواست پر خطرناک میدانوں میں قدم رکھا۔ اپنی عسکری مہارت کے ذریعے انہوں نے خطے کی اقوام کو یکجہتی اور اتحاد کا سبق دیا، مختلف ممالک میں مزاحمتی محوروں کو فعال کیا اور ان کی مدد سے ایک نئے نظم کا قیام ممکن بنایا جس نے خطے میں امریکی منصوبوں کو شکست دی۔
انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تکفیری دہشتگردوں کو شکست دے کر عراق کے شہر موصل کو آزاد کرایا اور داعش کے خاتمے کے ذریعے خطے کی اقوام اور حکومتوں کو درپیش خطرہ دور کیا۔
شہید بیت المقدس قاسم سلیمانی نے نہ صرف خطے میں امن و امان قائم کیا بلکہ داعش کے خطرے کو ایران کی سرحدوں سے دور رکھا؛ امریکی منصوبوں کو ناکام بنایا؛ مزاحمتی محور کو مضبوط کیا اور جغرافیائی مزاحمت کو وسعت دی۔ وہ ہمیشہ قومی خودمختاری اور ممالک کی سالمیت کے احترام کو مقدم رکھتے تھے۔ رہبر معظم کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی "عالمی مزاحمت کی علامت" تھے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر خطے اور دنیا میں امن و استحکام کے لیے ان کی خدمات کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ خطے میں طاقت کے توازن کو مزاحمتی تحریک کے حق میں تبدیل کرنا، ایران اور عراق کے عوام کے درمیان بھائی چارے کو فروغ دینا، قومی خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا، دفاعی خود انحصاری کا ماڈل پیش کرنا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات کو محفوظ بنانا سردار سلیمانی کی خدمات میں شامل ہیں۔
داعش امریکہ اور اتحادیوں کی پیداوار
ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے اعترافات کے مطابق داعش کو امریکی افواج نے تربیت، تنظیم، اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اس کے بعد یہ دہشت گرد گروہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی و سیاسی حمایت کے ساتھ عراق اور شام میں اپنی کارروائیاں شروع کرنے میں کامیاب ہوا۔ امریکہ نے اپنے علاقائی اتحادیوں سے مل کر داعش کے ذریعے مقاومت کے مرکزی محور ایران کی سرحدوں کو غیر محفوظ بناکر مقاومت کی کمر توڑنے کی کوشش کی۔
داعش کا اصل ہدف ایران میں عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کے شہروں اور سرحدوں کو غیر محفوظ کرنا تھا۔ تاہم، شہید جنرل قاسم سلیمانی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایران کی سرحدوں سے دور اس دہشت گرد گروہ کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ رہبر معظم انقلاب نے اس حوالے سے فرمایا کہ ہمارے جوان عراق اور شام میں گئے۔ امیرالمومنین نے فرمایا کہ وہ قوم جو اپنے گھر میں دشمن سے لڑتی ہے، ذلیل ہو جاتی ہے۔ دشمن کو اپنے گھر تک نہ آنے دو۔ اسی لیے ہمارے کمانڈرز، جن میں شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی شامل تھے، وہاں گئے، عراقی اور شامی نوجوانوں کو منظم اور مسلح کیا۔ انہوں نے داعش کا سامنا کیا، اس کی کمر توڑ دی، اور اس پر غالب آئے۔
یہ حکمت عملی ایران کی سرحدوں کو محفوظ رکھنے اور خطے میں امن و استحکام قائم کرنے کا ذریعہ بنی۔ جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کیا کہ ایران اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
داعش کا خاتمہ اور جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی
داعش جیسی خطرناک اور منظم دہشت گرد تنظیم کا خاتمہ ایک ایسا کارنامہ تھا جو شہید قاسم سلیمانی کی دوراندیشی، حکمت عملی، اور قیادت کی بدولت ممکن ہوا۔ وہ امام خمینیؒ اور رہبر معظم انقلاب کے مکتب سے متاثر تھے اور انہوں نے اس مکتب کی تعلیمات کو عملی میدان میں نافذ کیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے نہ صرف عسکری بلکہ ثقافتی، سیاسی اور روحانی طاقت کو بھی استعمال کرتے ہوئے داعش کو شکست دی۔
داعش کے خاتمے کے ذریعے شہید جنرل سلیمانی نے خطے، ایران، اور دنیا کو درپیش ایک بڑے خطرے کو ختم کر دیا۔ یہ گروہ جو سفاکیت اور دہشت گردی کی انتہا پر تھا، عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود شکست کھا گیا۔ شہید سلیمانی کی قیادت میں مزاحمتی محور نے داعش کے خاتمے کو ممکن بنایا، جو ایران اور دیگر ممالک کے لیے ایک بڑی فتح تھی۔
امریکہ کے منصوبوں کی ناکامی
امریکہ اور اسرائیل نے گریٹر مڈل ایسٹ منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت عراق اور شام کو کئی چھوٹے ممالک میں تقسیم کرکے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنی تھی۔ اس منصوبے کو عرب ممالک اور کچھ یورپی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے اس تقسیم کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے منظم حکمت عملی کے تحت کام کیا اور ان ممالک کی جغرافیائی سالمیت کا دفاع کیا۔
شام اور عراق میں مقاومتی بلاک تشکیل دے کر شہید جنرل سلیمانی نے وہ سرحدی خطوط کھینچے جس سے امریکی اور اسرائیلی ناپاک منصوبے خاک میں مل گئے۔ عراق کو تین حصوں (شیعہ، سنی، کرد) میں تقسیم کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانے میں ان کا کردار اہم تھا۔
عراق کی خودمختاری کا تحفظ
امریکہ کی جانب سے عراق کی تقسیم کے منصوبے نے اس کی قومی سالمیت اور ہمسایہ ممالک خاص طور پر ایران کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے اس خطرے کا مقابلہ کیا اور عراق کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی عسکری، سیاسی، اور سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا۔ شہید جنرل سلیمانی کی یہ کوششیں نہ صرف عراق کی خودمختاری کو محفوظ رکھنے کے لیے اہم تھیں بلکہ پورے خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے کا ذریعہ بھی بنیں۔ انہوں نے عملی طور پر ثابت کیا کہ اگر مزاحمتی قوتیں متحد ہوں اور ایک جامع حکمت عملی کے تحت عمل کریں، تو طاقتور ممالک کے جارحانہ عزائم کو شکست دینا ممکن ہے۔
مزاحمتی محور کا قیام، شہید قاسم سلیمانی کی کامیاب حکمت عملی
شہید جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطی کے مختلف ممالک کو ایک متحدہ مزاحمتی محور کے تحت اکٹھا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان کی قیادت اور شخصیت نے ان ممالک کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا جو استکباری طاقتوں اور صہیونی منصوبوں کے خطرے سے دوچار تھے۔ شہید سلیمانی نے لبنان، ایران، افغانستان، اور عراق جیسے ممالک کو ایک ہی مقصد کے تحت متحد کیا، یعنی خطے کی آزادی، خودمختاری، اور سلامتی کا دفاع۔ ان کی کوششوں نے ان ممالک کو اتحاد کی اس حد تک پہنچایا کہ یہ مزاحمتی محور آج خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اگر یہ اتحاد تشکیل نہ دیا جاتا، تو مغربی ایشیا کا جغرافیہ آج بالکل مختلف ہوتا جو صہیونیت اور استکباری طاقتوں کے مفادات کے تابع ہوتا۔ شہید جنرل سلیمانی کی حکمت عملی نے نہ صرف خطے کو تقسیم ہونے سے بچایا بلکہ اس کے وسائل اور سیاسی حیثیت کو محفوظ رکھا۔
جنرل سلیمانی کی کوششیں نہ صرف اسلامی تاریخ میں بلکہ عالمی تاریخ میں بھی منفرد ہیں۔ ان کی مجاہدانہ حکمت عملی نے خطے میں استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا اور استکبار کو اس کے عزائم میں ناکام بنایا۔ آج مزاحمتی محور اتحاد کی علامت بن چکا ہے جو خطے کے تمام ممالک کے لیے امن اور خودمختاری کا ضامن ہے۔
طاقت کے توازن کی مقاومتی بلاک کے حق میں تبدیلی
شہید جنرل قاسم سلیمانی نے نہ صرف مزاحمتی تحریک کو مضبوط کیا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی انقلابی طور پر بدل دیا۔ داعش جیسے دہشت گرد گروہ کو خطے میں اس غرض سے متعارف کرایا گیا تھا کہ وہ اپنی وحشیانہ حکمت عملی اور نظریات کے ذریعے خطے کے مستقبل کا مالک بن جائے۔ تاہم جنرل سلیمانی نے اپنی گہری بصیرت اور مجاہدانہ حکمت عملی کے ذریعے اس خطرے کو ناکام بنایا۔
جنرل سلیمانی نے مختلف ممالک، قومیتوں، اور زبانوں کے لوگوں کو یکجا کر کے مزاحمتی محور کو نہ صرف ایک مضبوط اتحاد میں بدلا بلکہ اس کی جغرافیائی حدود کو بھی وسعت دی۔ انہوں نے خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے مزاحمتی تحریک کے ارتقائی سفر کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔
2011 کے بعد دشمنوں نے بھی تسلیم کیا کہ مزاحمتی محور اب ایک تحریک اور پھر ایک متحدہ اتحاد میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس اتحاد نے خطے میں ایسی طاقت حاصل کر لی ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک، جو دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ خریدار ہیں، یمن میں انصار اللہ اور یمنی عوام کے خلاف جنگ میں شکست سے دوچار ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال واضح طور پر خطے میں طاقت کے توازن کی مزاحمتی تحریک کے حق میں تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔
مزاحمتی محور کی ترقی اور طاقت نے نہ صرف خطے کے مستقبل کا تحفظ کیا بلکہ دشمنوں کے منصوبوں کو بھی ناکام بنایا۔ جنرل سلیمانی کی قیادت نے ثابت کیا کہ درست حکمت عملی، اتحاد، اور مزاحمت کے ذریعے بڑی طاقتوں کے عزائم کو شکست دینا ممکن ہے۔ آج مزاحمتی تحریک خطے میں استحکام اور خودمختاری کی علامت بن چکی ہے۔
آپ کا تبصرہ