7 جون، 2024، 11:03 PM

امام جواد علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے حرم مطہر کاظمین ع کی نایاب تاریخی تصاویر

امام جواد علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے حرم مطہر کاظمین ع کی نایاب تاریخی تصاویر

حرم مطہر کاظمین کی موجودہ عمارت صفوی دور کی ابتدائی تعمیرات اور بعد کے ادوار کے اضافہ جات کا نمونہ ہے، جس میں صفوی دور کے فن تعمیر کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ برآمدوں کی تزئین سے لے کر شاندار کاشی کاری اور نقش نگاری تک میں صفوی دور کی جھلک نمایاں ہے۔

مہر نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ماہ ذی القعدہ کی آخری تاریخ امام جواد علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔

حرم مطہر کاظمین ع کی عمارت ایک بڑی عمارت ہے جو اسلامی فن تعمیر اور تخلیقی نمونوں کے لحاظ سے اسلامی فنکاروں کی ذہانت کو ظاہر کرتی ہے۔ حرم امام جواد علیہ السلام کا فن تعمیر مختلف تاریخی ادوار میں سینکڑوں معماروں کی محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے اماموں سے عقیدت، محبت اور اخلاص کے جذبے کے زیر اثر یہ شاہکار تخلیق کیا۔

بغداد شہر عباسی حکومت (منصور عباسی) کے آغاز میں 145 ہجری میں  قائم ہوا۔ خطیب البغدادی (کتاب تاریخ بغداد کے مصنف) کے مطابق اس شہر کی تعمیر 146 ہجری میں مکمل ہوئی اور پھر انہوں نے شہر کے چاروں طرف اونچی فصیلیں اور قلعے تعمیر کیے اور یہ کام 149 ہجری میں مکمل ہوا۔ 

منصور نے اپنے محل کی تکمیل کے بعد، شمالی علاقے کو "قریش کے قبرستان" کے طور پر قرار دیا جو صرف ان کے خاندان کے لیے تھا لیکن بعد میں "آرامگاہ بنی ہاشم"  کے نام سے مشہور ہوا۔ 

شیخ مفید (کتاب الارشاد میں) ایک روایت میں کہتے ہیں کہ یہ قبرستان بنی ہاشم اور اس زمانے کے بزرگوں اور امراء کا تھا کہ جس میں پہلے شخص جعفر بن ابی جعفر منصور کو 150 ہجری میں دفن کیا گیا تھا۔ پھر اس قبر میں تدفین کا سلسلہ 25 رجب 183 ہجری تک جاری رہا یہاں تک کہ جب ہارون رشید کے حکم پر امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کو "سندی بن شاہک" کے زہر سے شہید کر دیا گیا۔ امام کے جسد اطہر کو تشییع کے بعد قبرستان قریش (موجودہ کاظمین) میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

امام جواد علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے حرم مطہر کاظمین ع کی نایاب تاریخی تصاویر

البتہ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم ع کو اس قبر میں دفن کیا گیا جو آپ ع نے اپنے لیے پہلے سے خریدی تھی۔

 امام کی قبر "باب التبن" کے نام سے مشہور ہوئی کیونکہ آپ کی قبر باب التبن مزار کے دروازوں میں سے ایک کے قریب تھی۔ نیز امام علیہ السلام کی قبر کے ساتھ والی مسجد باب التبن مسجد کے نام سے مشہور ہوئی۔

امام جواد علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے حرم مطہر کاظمین ع کی نایاب تاریخی تصاویر

 220 ہجری میں ذوالقعدہ کے آخر میں امام ابو جعفر محمد جواد بن علی الرضا بن موسی بن جعفر علیہ السلام بغداد میں شہید ہوئے۔ آپ کے جسد مبارک کو آپ کے جد بزرگوار (امام کاظم ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا اور امام جواد علیہ السلام کی تدفین کے بعد قبرستان قریش مزید پھیل گیا اور اہل بیت علیہم السلام کے کچھ پیروکار اس جگہ آباد ہو گئے اور انہوں نے اس علاقے میں اماموں کے زائرین کی خدمت اور نصرت کی،  شہر کاظمین اسی دور میں قائم ہوا۔

حرم کی موجودہ عمارت صفوی دور کی ابتدائی تعمیرات اور بعد کے ادوار کے اضافہ جات کا ایک حسین مرقع ہے جس میں صفوی دور کے فن تعمیر کے نمونے یعنی خوبصورت پورچوں، شاندار کاشی کاری اور آئینہ نگاری کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 

حرم مطہر کے دو سنہری گنبد ہیں جن میں سے ہر ایک دونوں اماموں میں سے ایک کی قبر مبارک پر رکھا گیا ہے۔ دو گنبدوں کے نیچے ایک مستطیل مربع جگہ ہے جو دو مشرقی اور مغربی دیواروں کے بیچ میں ہے جس میں گنبد کو ڈھانپنے والے دو بڑے کالم ہیں۔ چاندی کے مزار میں دو اماموں کی قبریں ہیں جن میں دو شاندار سر بمہر صندوق ہیں۔ 

جب ہم جنوبی ایوان سے حرم کے پہلے رواق (پورچ)  میں داخل ہو کر ضریح اور گنبد کے اندر جائیں گے تو سب سے پہلے امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی ضریح مبارک کو سامنے پائیں گے اور اس کے عقب میں امام محمد تقی ع کی ضریح مبارک ہے۔ 
حرم کے چاروں طرف چار بڑے شبستان ہیں اور جنوبی اور مغربی رواق (پورچ) ایک خوبصورت اور بڑے ایوان میں کھلتے ہیں۔

مجموعی طور پر حرم اور رواق (پورچوں) کے تین بڑے احاطے ہیں جو صحن کہلاتے ہیں، مغربی صحن کو "صحن قریش" کہا جاتا ہے جس میں مینار اور صحن کے سات دروازوں کا خوبصورت فن تعمیر، شاندار کاشی کاری اور نقش و نگار، دیکھنے والوں کو داد دینے پر مجبور کرتے ہیں جو مرحوم فرہاد مرزائی قاجار (نصیر الدین شاہ کے چچا) کی تخلیقات میں سے ہیں۔ 

مسجد صفوی بھی شاہ اسماعیل صفوی کی تعمیرات میں سے ایک ہے جو انہوں نے عراق کو فتح کرنے کے بعد عراقی عمارتوں کے انداز میں تعمیر کی تھی۔ اس مسجد کی ایک خاص خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے موٹے کالموں اور محرابوں کی شاندار بناوٹ دیکھنے والوں خیرہ کر دیتی ہے۔ اور اس میں کاشی کاری شدہ ایک بہت ہی چھوٹا گنبد ہے جو صحن کے اندر بمشکل دکھائی دیتا ہے۔ مسجد کے پرانے محراب اور منبر کے سامنے ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے جو حرم مطہر کے شمالی رواق میں کھلتی ہے جس سے ضریح مبارک کو دیکھا جا سکتا ہے۔

News ID 1924546

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha