مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، لبنانی روزنامہ الاخبار نے اپنے آج کے شمارے میں غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے صیہونی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے مسودے کا مکمل متن شائع کیا ہے جو جمعہ 26 اپریل کو پیش کیا گیا۔
اس مسودے کا مکمل متن درج ذیل ہے:
غزہ میں اسرائیلی فریق اور فلسطینی فریق کے درمیان قیدیوں اور زیر حراست افراد کے تبادلے اور دیرپا امن کی بحالی کے معاہدے کے بنیادی اصول۔
اس معاہدے کا مسودہ غزہ کی پٹی میں تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کے مقصد سے تیار کیا گیا تھا، جس میں فوجی اور عام شہری، زندہ اور مردہ افراد شامل ہیں، اور جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے تمام شقوں اور نظام الاوقات کی پاسداری اور دیرپا امن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس معاہدے میں مندرجہ ذیل تین مراحل شامل ہیں:
پہلا مرحلہ: (40 دن اور قابل توسیع)
فریقین کے درمیان باہمی فوجی کارروائیوں کی عارضی معطلی اور غزہ کے مشرق سے اسرائیلی افواج کا انخلاء اور آبادی والے علاقوں سے غزہ کے تمام حصوں (غزہ کی پٹی کے علاوہ) کی سرحدوں کے قریب علاقوں میں منتقل ہونا۔
دن میں 8 گھنٹے اور قیدیوں کے تبادلے کے آغاز پر 10 گھنٹے کے لیے پروازوں (بشمول ملٹری اور انٹیلی جنس) کی معطلی
شہری پناہ گزینوں کی ان کے رہائشی علاقوں میں واپسی
اس مرحلے کے ساتویں دن (تمام اسیر خواتین کی رہائی کے بعد)، اسرائیلی افواج الرشید اسٹریٹ سے مشرق کی جانب اور صلاح الدین اسٹریٹ کے آس پاس کے علاقوں میں انسانی امداد کی ترسیل کو آسان بنانے اور ان کی واپسی کو ممکن بنانے کے لئے پیچھے ہٹیں گی تاکہ شہری اور غیر مسلح پناہ گزینوں کو ان کے رہائشی علاقوں میں منتقل کیا جاسکے۔
اس مرحلے کے 22 ویں دن (دو تہائی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد) اسرائیلی فوجیں غزہ کے مرکز (خاص طور پر شہدائے نیتسارم اور الکویت اسکوائر) سے پیچھے ہٹ جائیں گی، تاکہ مہاجرین کی غزہ کے شمال میں اپنے رہائشی علاقوں میں واپسی ممکن ہوسکے۔
انسانی امداد کی فراہمی اور ایندھن کی بڑی اور مناسب مقدار میں داخلے کی سہولت فراہم کرنا (بشمول 500 ٹرک فراہم کیے گئے ہیں کہ 50 ٹرک ایندھن ہیں اور 250 ٹرک شمالی غزہ جاتے ہیں)۔ یہ ایندھن بجلی اور کاروباری سہولیات اور غزہ کے تمام علاقوں میں ملبہ ہٹانے اور ہسپتالوں، طبی مراکز اور بیکریوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ضروری آلات کے لیے درآمد کیا گیا ہے اور یہ عمل معاہدے کے تمام مراحل میں جاری رہے گا۔
فریقین کے درمیان قیدیوں اور زیر حراست افراد کا تبادلہ
حماس نے کم از کم 33 قیدیوں کو رہا کیا، جن میں تمام زندہ اسرائیلی خواتین قیدی (بشمول فوجی اور آباد کار)، بچے (19 سال سے کم عمر)، بوڑھے (50 سال سے زائد عمر کے) اور بیمار اور زخمی شامل ہیں، اور اسرائیل بھی اس کے جواب میں ہر اسرائیلی عورت اور قیدی کے بدلے 20 فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا کرے، البتہ یہ رہائی حماس کی طرف سے فراہم کی گئی فہرستوں کی بنیاد پر عمل میں لائی جائے گی۔
حماس کی طرف سے فراہم کردہ فہرستوں کے مطابق اسرائیل 50 سال سے زائد عمر کی ہر خاتون قیدی اور بیمار اور زخمیوں کی رہائی کے بدلے 20 بزرگ قیدیوں (50 سال سے زیادہ عمر کے اور بیمار اور زخمی) کو رہا کرے گا (بشرطیکہ ان کی سزا 10 سال سے زیادہ نہ ہو)۔
اسرائیل اپنے ہر قیدی کے بدلے 40 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا (جن میں سے 20 کو عمر قید کی سزا ہے اور جن میں سے 20 کی سزا 10 سال سے کم ہے) تاہم، اس معاملے میں، اسرائیل کو کچھ ناموں کو مسترد کرنے کا حق ہے (وہ 200 افراد تک کی تعداد کے بارے اپنے اختیار کو محفوظ رکھتا ہے)۔
پہلے مرحلے میں فریقین کے درمیان قیدیوں اور نظربند افراد کے تبادلے کا جدول:
حماس پہلے دن تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی اور ہر تین دن میں تین تین قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور یہ عمل 33 دن تک جاری رہے گا۔ دوسری جانب اسرائیل بھی متفقہ فہرست کی بنیاد پر فلسطینی قیدیوں کی متفقہ تعداد کو جیلوں سے رہا کرے گا۔
آخر کار ساتویں دن کے اختتام تک حماس ان 33 افراد کے علاوہ باقی تمام قیدیوں کی فہرست پیش کرے گی جنہیں مختلف طبقوں سے رہا کیا جانا ہے، اور ان افراد کو 34ویں دن سے رہا کیا جائے گا، اور اس میں توسیع کی جائے گی۔ فوجی کارروائیوں کی معطلی کا انحصار اس تعداد پر ہے کہ اس نے کتنے لوگوں کو حراست میں لیا ہے، اور ہر اضافی قیدی جو رہا کیا جاتا ہے، اس کے لیے غیر مستقل جنگ بندی میں ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے، اور اسرائیلی فریق بھی فلسطینی قیدیوں کی متفقہ تعداد کو رہا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ البتہ یہ رہائی فریقین کی متفقہ فہرستوں کی بنیاد پر ہوگی۔
تبادلے کے عمل کا تسلسل معاہدے کی شقوں کے عزم پر منحصر ہے جس میں معاندانہ کارروائیوں کا خاتمہ اور فورسز کی دوبارہ تعیناتی، بے گھر افراد کی واپسی اور انسانی امداد کی بہم رسانی شامل ہے۔
آزاد کیے گئے فلسطینی قیدیوں کو ان الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار نہیں کیا جائے گا جن کی وجہ سے انہیں پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں زیر غور اڈوں کو دوسرے مرحلے کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں لایا جائے گا۔
پہلے مرحلے کے آغاز سے 16 دنوں سے بھی کم عرصے میں، (اور آدھے قیدیوں کی رہائی کے بعد) فریقین کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ایک دیرپا جنگ بندی تک پہنچنے اور اس کی دفعات اور تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے شروع ہو جائیں گے، اور اقوام متحدہ اور متعلقہ دوسری بین الاقوامی تنظیموں کی ایجنسیاں بھی غزہ کے تمام علاقوں میں انسانی خدمات کی فراہمی جاری رکھیں گی اور یہ عمل معاہدے کے تمام مراحل میں جاری رہے گا۔
غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو (بشمول بجلی، پانی، سیوریج، مواصلات اور نقل و حمل کے راستے) تمام علاقوں میں شروع ہو جائیں گے، اور شہری دفاع کے لیے ضروری آلات ملبہ ہٹانے کے لیے مربوط طریقے سے علاقے میں داخل ہوں گے۔ یہ عمل بھی معاہدے کے تمام مراحل کے دوران جاری رہے گا۔
جنگ کے دوران اپنے گھروں کو کھونے والے لوگوں کو پناہ دینے کے لیے پناہ گزین کیمپ کے قیام کے لیے درکار سامان کے داخلے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
معاہدے کے 14ویں دن سے زخمی فوجیوں کی متفقہ تعداد کو اپنے علاج کے لیے رفح کراسنگ سے گزرنے کی اجازت ہوگی۔
دوسرا مرحلہ (42 دن)
معاہدے کے اس مرحلے پر مستقل جنگ بندی کے لیے ضروری تیاریاں کر لی گئی ہیں اور اسرائیلی افواج غزہ سے انخلاء کر رہی ہیں۔
اس مرحلے میں غزہ کی جامع تعمیر نو اور جنگ کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مکانات اور شہری سہولیات اور شہری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
تیسرا مرحلہ (42 دن)
شناخت کے بعد فریقین کے درمیان تمام لاشوں کا تبادلہ۔
اس مرحلے پر غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ 5 سال تک شروع ہو جائے گا جس میں رہائشی مکانات، شہری سہولیات اور انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ فلسطینی فریق کو فوجی انفراسٹرکچر اور سہولیات کی تعمیر نو سے منع کیا جائے گا، اور غزہ میں فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی سامان، خام مال اور آلات کو درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
معاہدے کے ضامن: قطر، مصر اور امریکہ
آپ کا تبصرہ