مہر خبررساں ایجنسی نے غیر ملکی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ اگر ایک ناراض شخص کی وجہ سے فرانس مسلمانوں اور اسلام کو قصور وار ٹھہراتا ہے تو پھر فرانسیسیوں کو سزا دینا مسلمانوں کا حق ہے۔ اپنے سلسلہ وار ٹوئٹس میں مہاتیر محمد نے گستاخانہ خاکوں کی مذمت کی اور ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ فرانس کے رویے سمیت آزادی اظہارِ رائے کی اصل حقیقت بیان کی۔
فرانس میں گستاخانہ خاکے دکھانے پر ایک چیچن نوجوان کے ہاتھوں استاد کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے مہاتیر نے کہا کہ اسلامی تعلیمات قتل کی اجازت نہیں دیتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قتل ایک ایسا عمل نہیں ہے جس کی میں اجازت دوں، چونکہ میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں، لہٰذا میرا نہیں خیال کہ اس کی بنیاد پر آپ دوسروں کی تضحیک کریں۔
انھوں نے مغربی اقدار اور ان کے رہن سہن کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کے لیے وہ رہن سہن عام سی بات ہے لیکن وہ اسے زبردستی دوسروں پر لاگو نہ کرے۔
مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ مغرب اپنے مذہب پر قائم نہیں رہا، یہ صرف نام کے عیسائی ہیں، رہن سہن کا انتخاب ان کا حق ہے لیکن وہ دوسرے مذاہب کی تضحیک نہ کریں۔
انھوں نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ مہذب انسان ہونے کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور گستاخ استاد کے قتل پر ابتدا سے ہی اسلام و مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
مہاتیر محمد نے ایک مرتبہ پھر اس قتل حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی تعلیمات نہیں ہیں، جبکہ مذہب سے قطع نظر مشتعل لوگ قتل کرتے ہیں۔
انھوں نے فرانسیسی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فرانسیسیوں نے ماضی میں لاکھوں انسانوں کو قتل کیا جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ملائیشیا کے صدر نے کہا کہ مجموعی طور پر مسلمانوں نے خون کا بدلہ خون کے قانون کو فرانسیسیوں پر نافذ نہیں کیا۔
آپ کا تبصرہ