طوفان الاقصی کے بعد نتن یاہو غزہ پر زمینی حملہ کرکے فلسطینیوں کو صٖفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے لیکن حزب اللہ نے لبنانی سرحدوں سے کامیاب حملے کرکے صہیونی فوج کو تقسیم کردیا جس سے اسرائیل کا منصوبہ اب تک عملی نہ ہوسکا۔

مہر خبررساں ایجنسی_بین الاقوامی ڈیسک؛ طوفان الاقصی شروع ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد صہیونی وزیراعظم اور وزیرجنگ نے حماس کے خلاف وسیع پیمانے پر زمینی حملے کی دھمکی دی تھی۔ عرب ممالک کے حکمران غزہ میں جنگ بندی کے لئے کوششیں کرنے لگے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اپنے بحری جہازوں کو بحیرہ روم میں بھیج کر تل ابیب کے ساتھ یکجہتی اور ایران اور حزب اللہ کو سخت پیغام بھیجنے کی کوشش کی جو کہ ایک حد تک دھمکی آمیز بھی تھی۔ لبنان، فلسطین اور یمن کے مزاحمتی گروہوں نے اپنی تیاریوں کے مطابق صہیونی اہداف پر حملے کرنا شروع کیا اور مقبوضہ علاقوں پر میزائلوں کی بارش کردی۔ اس تحریر میں شمالی سرحد پر حزب اللہ کی کاروائیوں اور فلسطین پر ان کے اثرات کے بارے میں کچھ عرائض پیش کی جارہی ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے تین نومبر کو اپنے خطاب میں کہا کہ حزب اللہ طوفان الاقصی کے شروع ہونے کے فورا بعد ہی جنگ میں داخل ہوچکی ہے۔ تنظیم صہیونی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کررہی ہے اس کے باوجود انہوں نے غزہ میں جنگ بندی پر بھی زور دیا۔

انہوں نے امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کشتیاں حزب اللہ کو ڈرانے کی جرائت نہیں رکھتیں ہمارے پاس ایسے ہتھیار ہیں جو ان کشیتوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے جوبائیڈن حکومت کو غزہ میں صہیونی جرائم کی اصلی وجہ قرار دیا۔

گذشتہ تین ہفتوں کے دوران صہیونی آرمی کا ایک تہائی، بحریہ کا نصف اور فضائیہ کا ایک چوتھائی حصہ شمالی سرحدوں پر تعیینات ہے تاکہ حزب اللہ کے جوانوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔

شمالی سرحدوں سے موصولہ خبروں کے مطابق صہیونی فوج اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 50 حزب اللہ کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔ لبنان کی مقاومت انتہائی باریک بینی کے ساتھ غزہ کے حالات پر نظر رکھی ہوئی ہے تاکہ تل ابیب کو کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے انتباہ جاری کیا جائے۔

7 اکتوبر کو ہونے والے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صہیونی حکومت نے اپنی فوجی برتری کو باقی رکھنے کے لئے حماس کے خلاف زمینی حملے کا اعلان کررکھا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے 3 لاکھ ریزرو فورسز کو ڈیوٹی پر بلایا گیا اور امریکہ سے اربوں ڈالر کی دفاعی امداد کے بعد حزب اللہ شمالی سرحدوں پر حملہ کرکے اسرائیلی فوج کی توجہ غزہ سے ہٹادی تاکہ غزہ میں زمینی آپریشن کا عمل موخر کیا جائے۔ حزب اللہ کے حملے شدید ہونے کے ساتھ اسرائیل نے لبنان کے ساتھ سرحدوں پر واقع 43 صہیونی بستیوں کو خالی کروایا ہے جس کی 65 ہزار صہیونی بے گھر ہوکر حکومتی کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ علاوہ ازین مقاومت نے صہیونی حکومت کی جانب سے نگرانی کے نصب کیمروں اور ٹاورز پر کامیاب حملہ کرکے اسرائیل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

المنار چینل کے مطابق اب تک مقاومتی گروہوں نے 105 سے زائد مقامات پر تقریبا 100 دفاعی ٹھکانوں، 140 خفیہ کیمروں، 33 ریڈار، 69 مواصلاتی سسٹم اور 12 ٹینکوں کو کامیابی سے ہدف بنایا ہے۔ ان حملوں کے دوران 40 صہیونی فوجی ہلاک اور 80 زخمی ہوگئے ہیں۔ 

شمالی سرحدوں پر حزب اللہ اور دوسری طرف سے یمن کے مجاہدین کے حملوں کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کی توجہ غزہ سے ہٹ گئی ہے اسی وجہ سے صہیونی وزیراعظم اور وزیرجنگ مسلسل لبنان کو حملوں کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حزب اللہ نے مخصوص اہداف کو نشانہ بناکر انتہائی کامیاب حکمت عملی اپنائی ہے جس کی وجہ سے صہیونیوں کے سارے منصوبے ناکام ہورہے ہیں۔ حزب اللہ کے مسلسل حملوں کی وجہ سے صہیونی اس علاقے کی صورتحال پر قابو پانے سے عاجز ہیں اور دوسری طرف لبنانی فریق کے ساتھ کشیدگی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ باقاعدہ جنگ چھیڑدی جائے۔ حزب اللہ نے صہیونی حکومت کے لئے الجھن پیدا کرکے غزہ پر شدید زمینی حملے کو کامیابی کے روکے رکھا ہے۔

طوفان الاقصی کے بعد نتن یاہو اور صہیونی ذرائع ابلاغ اس آپریشن کو گیارہ ستمبر کے حملوں یا جدید ہولوکاسٹ سے تعبیر کرتے ہوئے مقاومت کے خلاف شدید اور وحشیانہ حملوں اور خطے میں مغربی ممالک کی مدد سے ایک وسیع جنگ کا پیش خیمہ قرار دینا چاہتے تھے تاہم خطے کی مقاومتی تنظیموں نے مختلف محاذوں پر کاروائی کرتے ہوئے تل ابیب کے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا موقع نہیں دیا۔

اسرائیلی حکام مشرق وسطی سے تیسری عالمی جنگ کے آغاز کی سازش کررہے تھے تاہم ایران اور حزب اللہ  جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کرکے حماس کو حاصل ہونے والی کامیابی کو رائیگان ہونے سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق جنگ بندی اور حماس کی شرائط کو قبول کرنا تنن یاہو کی مکمل شکست تصور کیا جائے گی جس سے انتہا پسند صہیونی وزیراعظم کا سیاسی کیرئیر افسوسناک انجام کو پہنچے گا۔

حزب اللہ نے اسرائیل کے سامنے ریڈلائن کھینچتے ہوئے جنگ بندی اور مقبوضہ فلسطین سے صہیونی انتہاپسند عناصر کو ختم کرنے کی پالیسی کو عملی بنانا شروع کیا ہے۔ حزب اللہ کی کاروائیوں اور پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے تل ابیب پر غزہ میں جنگ بندی کے لئے دباو میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

لیبلز