مہر خبررساں ایجنسی بین الاقوامی ڈیسک: لاطینی امریکہ کے کئی ممالک ماضی میں فلسطین کے حامی رہے ہیں۔ حالیہ ایام میں غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی اور قتل عام کے بعد ان ممالک میں شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ان ممالک نے غزہ پر حملے کو انتہائی نامناسب قرار دیتے ہوئے فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔
بولیویا کے نائب وزیرخارجہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کئے جارہے ہیں۔
اس سے پہلے صدارتی دفتر کی خاتون وزیر ماریا پرادا نے کہا تھا کہ اسرائیل اور اس کے بین الاقوامی حامیوں کے نامناسب رویے کی وجہ سے غزہ کے لئے امدادی اشیاء کی ترسیل ناممکن ہوگئی ہے تاہم بولیویا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اشیاء بھیجے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک صہیونی حکومت کے حملوں میں غزہ میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ بڑی تعداد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جارہا ہے۔ غزہ میں رہنے والے غذائی اجناس کے محتاج ہیں۔
بولیویا ان ممالک میں سے ہے جنہوں نے حماس کی جانب سے حملوں کے بعد اسرائیلی بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے سفارت تعلقات منقطع کئے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق غزہ پر صہیونی جارحیت کے نتیجے میں 8525 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔
یاد رہے کہ بولیویا نے تعلقات ختم کرنے کا یہ دوسرا فیصلہ کیا ہے اس سے پہلے 2009 میں صدر اوو مورالیس کے دور میں بھی صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کئے تھے لیکن 2020 میں دوبارہ بحال تعلقات بحال ہوگئے تھے۔
موجودہ صدر لوئیس آریس نے فلسطینی سفیر سے ملاقات کے دوران صہیونی حکومت کے اقدامات کو جنگی جرائم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم فلسطین میں ہونے والے مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں اور صہیونی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں۔
یہ اقدامات سابق صدر اور بااثر شخصیت آوو مورالیس کے مطالبے پر انجام دیئے گئے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد حکومت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ صہیونی حکومت کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں شکایت درج کی جائے۔ نتن یاہو اور اس کے ساتھی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔
فلسطینی تنظیم حماس نے بولیویا کے اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے عرب ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ لاطینی ملک کی پیروی کرتے ہوئے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات ختم کریں۔
صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات ختم کرنے میں بولیویا تنہا نہیں ہے بلکہ لاطینی امریکہ کے کئی دیگر ممالک نے بھی ایسے اقدامات کئے ہیں۔ جن مین کولمبیا،ہنڈوراس اور چلی شامل ہیں۔ کولمبیا اور چلی نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔
ہنڈوراس نے بھی حال ہی میں صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ میں جارحیت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلالیا ہے۔
بعض دیگر ممالک کے سربراہان مملکت نے سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
چلی کے صدر گیبریل بورک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا ہے کہ اسرائیل کی کاروائیاں ناقابل قبول ہیں۔
چلی لاطینی امریکہ کا اہم ملک ہے جہاں فلسطینی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ صدر بوریک نے کہا ہے کہ چلی غزہ میں فوجی کاروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔ سویلین پر ہونے والے حملے کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہیں۔ چلی کے صدر نے ماضی میں بھی صہیونی حکومت کے خلاف ایسے بیانات دیئے ہیں۔ ان کا صہیونیت مخالف رویہ پہلے بھی دیکھا گیا ہے گذشتہ سال اسرائیلی نئے سفیر کی تعییناتی کے موقع پر سفارتی اسناد قبول کرنے میں دو ہفتے انتظار کرنا پڑا تھا۔
کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹرو نے ایکس پر لکھا ہے کہ فلسطینی عوام کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے مشورے کے لئے ہم نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو واپس بلایا ہے تاکہ مشورہ کیا جاسکے اگر صہیونی حکومت کے مظالم بند نہ ہوئے تو ہم وہاں نہیں رہ سکتے ہیں۔
صدر گسٹاو نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو نازیوں کے اقدامات سے مشابہ قرار دیا تھا۔
لاطینی امریکہ سے اسرائیل کے خلاف اقدامات کرنے والا چوتھا ملک ہنڈوراس ہے جس نے تل ابیب کی کاروائیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلایا ہے۔ ہنڈوراس نے اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف وزری کا مرتکب قرار دیا ہے۔
لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک برازیل میکسیکو نے بھی غزہ کی صورتحال کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ برازیلی صدر داسیلو نے کہا ہے کہ ہمیں پہلی مرتبہ ایسی جنگ کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں بچوں کی کثیر تعداد قتل ہوگئی ہے۔ خدا کے لئے بس کریں۔
انہوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے مزید کہا تھا کہ صہیونی وزیراعظم دیوانہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے غزہ کی تباہی کی ٹھان لی ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ حماس کے بہانے لاکھوں لوگوں کی جان سے کھیلنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے برازیل غزہ میں جاری بحران کے بارے میں اجلاس بلائے گا۔
علاوہ ازین وینزویلا کے صدر نیکولس مدورو نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں آبادکاری کا سلسلہ فوری طور پر روک دے۔ صلح کا واحد راستہ یہی ہے۔ وینزویلا ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے جلد قیام کا حامی ہے۔
تاریخی لحاظ سے بائیں بازو کی لاطینی امریکی ریاستیں فلسطینی عوام کے ساتھ ہمیشہ اظہار ہمدردی کرتے آئے ہیں جبکہ دائیں جانب جھکاو رکھنے والے ممالک امریکی اقدامات کو ہمیشہ سے اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلے کرتے آئے ہیں۔ فلسطین کے حامی ممالک عوامی اور حکومتی سطح پر صہیونی حکومت کے خلاف موقف اختیار کرتے رہے ہیں۔
لاطینی امریکہ میں تقریبا پندہ لاکھ فلسطینی نژاد شہری رکھتے ہیں جو کہ عرب ممالک کے بعد دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس خطے میں فلسطینیوں کی آمد صدیوں پہلے شروع ہوگئی تھی۔ لاطینی امریکہ جیسے دورافتادہ خطے میں فلسطینی کی آمد میں صہیونی حکومت کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں مظالم بڑھنے کے بعد خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق چلی میں فلسطینی مہاجرین کی سب سے زیادہ آبادی رہتی ہے جن کی تعداد 3 لاکھ سے دس لاکھ تک ہے۔ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی موجودگی کی وجہ سے لاطینی امریکہ میں اسرائیل مخالف جذبات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ چلی اور بعض دیگر ممالک کی جانب سے صہیونی حکومت کے خلاف حالیہ اقدامات اور بیانات کی ایک وجہ فلسطینی نژاد آبادی ہے۔