مہر خبررساں ایجنسی نے ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ چین کے شہر بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ فورم میں کئی ممالک کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کی جبکہ ہندوستان نے اس فورم میں عدم شرکت کرکے اپنے تحفظات کا عملی طور پر اظہار کیا ہے۔ ہندوستان کا مؤقف تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان جاری ون بیلٹ ون روڈ کا فلیگ شپ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہندوستانی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے لہذا اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق ہندوستان کا سی پیک پر اعتراض درست ہے تاہم متنازع بات یہ ہے کہ ہم خود مختاری کے اہم ترین سوال پر کسی عالمی طاقت کو ساتھ نہیں کرسکے۔ انڈیں ایکسپریس نے مزید لکھا ہے کہ کانفرنس میں شرکت کرکے اپنی آواز اور مؤقف پیش کرنے کے بجائے اس کا بائیکاٹ کرکے بھارت نے یہ پیغام دیا کہ وہ ہر فورم پر آواز بلند کرے گا لیکن درحقیقت جو ہوا ہے اسے تسلیم کرلیا ہے‘۔دی ہندو نے اپنے اداریئے میں لکھا کہ ہندوستان کے تحفظات درست ہیں اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھارتی اعتراض دور ہونے تک ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ نہیں بننا سمجھ میں آتا ہے، تاہم بحیثیت مبصر بھی فورم میں شریک نہ ہونا سفارت کاری کے دروازے بند کرنے جیسا ہے، بالخصوص امریکہ اور جاپان کے سامنے جو چین کے اس منصوبے کا حصہ نہیں لیکن پھر بھی انہوں نے فورم میں اپنے سرکاری وفد روانہ کیے۔ دی ہندو کے مطابق ’اپنے تحفظات چین تک پہنچانے اور ان کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بھارت چین سے فعال انداز میں رابطہ کرے‘۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق " بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرکے بھارت نے عام روش کے برخلاف ایک دلیرانہ خارجہ پالیسی کا اقدام لیا ہے" ۔ ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ ’چین کے اہم ترین تعمیراتی منصوبے پر بھارت واضح حریف بن کر سامنے آیا ہے، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر بھارتی تحفظات شاید بظاہر غیر واضح ہوں مگر جغرافیائی سیاست کے حوالے سے دیکھیں تو یہ واضح طور پر دکھائی دیں گے۔بیجنگ کی اس دلیل کو ماننا بہت مشکل ہے کہ ان کا چند کھرب ڈالرز کا منصوبہ دنیا کے لیے ایک تحفہ ہوگا۔کسی بھی صورتحال میں بھارت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں چینی منصوبوں کو روکنے کی کوشش کرے گا، بھارت کا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ اس منصوبے کا حصہ نہیں بنے گا، بیجنگ کے لیے یہ سوال برقرار ہے کہ وہ کیوں اس بات پر اتنا زور دے رہا ہے کہ بھارت اس منصوبے کی تائید کرے جبکہ چین خود نیوکلیئر سپلائرز گروپ سمیت ہر فورم پر بھارت کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
ادھر پاکستان نے ون بیلٹ ون روڈ اجلاس میں شرکت کرکے اس منصوبے سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اسے چین اور پاکستان کی قوموں کے علاوہ دیگر اقوام کی خوشحالی کے لئے بھی اہم قراردیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی حمایت کرتا ہے ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ون بیلٹ ون روڈ ایشیاء، افریقہ اور یورپ میں دنیا کی معیشتوں کیلئے مرکزی اہمیت کا حامل بن چکا ہے جے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور سلک روڈ فنڈ کی حمایت حاصل ہے۔
آپ کا تبصرہ