مہر خبررساں ایجنسی نے ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستانی سپریم کورٹ نے انتخابی عمل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ذات پات، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بھارتی آئین کی اساس سیکولر ہے جسے صرف اسی صورت برقرار رکھا جاسکتا ہے جب انتخابی عمل بھی سیکولر اقدار کا پابند ہو اور اسی لئے کسی امیدوار کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مذہب، نسل، ذات پات، برادری یا زبان کی بنیاد پر ووٹ لے سکے یا دوسرے امیدواروں کے خلاف ان ہی بنیادوں پر تنقید کرسکے۔ ’’خدا/ بھگوان اور انسان میں تعلق انفرادی معاملہ ہے جبکہ ریاست اس تعلق کی بنیاد پر ایسی کسی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ یہ بھارتی ریاست کے آئین اور قانون کے بالکل خلاف ہے،‘‘ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا۔ واضح رہے کہ آج سے تقریباً 20 سال پہلے بھارت کے ایک عدالتی فیصلے میں ہندو دھرم کو " زندگی کا ایک طریقہ " قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انتخابات کے دوران کوئی بھی امیدوار مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکتا ہے کیونکہ مذہب زندگی گزارنے ہی کا ایک طریقہ ہے۔اس فیصلے کے خلاف سیکولر حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً مختلف عدالتی درخواستیں دائر کی جاتی رہیں جن میں عمومی طور پر مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بھارتی آئین سیکولر ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے یا ووٹ مانگنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ان درخواستوں کی روشنی میں بھارتی سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال تھا کہ عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کو بدعنوانی شمار کیا جائے یا نہیں؛ اور یہ کہ کیا ایسا کرنے والے کسی امیدوار کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی میں 7 ججز پر مشتمل یہ بینچ اسی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کررہی تھی۔ 7 میں سے 3 ججز نے فیصلے سے اختلاف جبکہ 4 نے اس سے اتفاق کیا۔
ہندوستانی سپریم کورٹ نے انتخابی عمل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ذات پات، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
News ID 1869443
آپ کا تبصرہ