مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت حواس باختہ ہوکر غزہ میں سویلین تنصیبات اور عام شہریوں کا قتل عام کررہی ہے۔ وزیراعظم نتن یاہو بحران پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اس وجہ سے ان کے مخالفین ان کو وزارت عظمی کے منصب سے برطرف کرنے کی کوششوں میں تیزی لارہے ہیں۔
فلسطین کے حالات کے بارے میں مزید روشنی ڈالنے کے لئے مہر نیوز کے نامہ نگار نے بیروت میں سابق لبنانی وزیرخارجہ عدنان منصور سے رابطہ کیا۔ ان کی مہر نیوز کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت کو مقاومت کے ہاتھوں مختلف شعبوں میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسرائیل کی معیشت مکمل تباہی کے دہانے پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے حالیہ چند سالوں نے اپنے منصوبوں کو خفیہ رکھتے ہوئے دشمنوں پر اچانک وار کرتے ہوئے مختصر عرصے میں اپنے اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ لیکن اس جنگ میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ 40 دن گزرنے کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف میں مکمل ناکام رہا ہے۔ صہیونی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ حماس کو مکمل نابود کردے گی تاہم اب تک غزہ پر غلبہ پانے میں ناکام رہی ہے اس کے برعکس اسرائیل کو اس جنگ میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
سابق وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت اس جنگ میں ہر روز 260 ملین ڈالر خرچ کررہی ہے اس طرح اب تک ساڑھے سات ارب ڈالر خرچ کیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اسرائیل لمبے عرصے تک جنگ کو طول دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق طوفان الاقصی کے بعد اسرائیل میں بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے اسی طرح ملکی جی ڈی پی 5۔1 فیصد کم ہوئی ہے جوکہ صہیونی حکومت کے لئے نہایت ہی تشویشناک امر ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ غزہ کے خلاف جارحیت کے بعد اسرائیل سے صہیونیوں نے ہجرت کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے دفاتر میں اسرائیل سے واپس جانے والوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ دوہری شہریت کے حامل اسرائیل اپنے آبائی وطن واپس جانے میں مصروف ہیں۔
فرانسوی اخبار کے مطابق طوفان الاقصی کے بعد سے اب تک 4000 اسرائیلی شہری فرانس واپس جانے کا تقاضا کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی معیشت کو سخت نقصان ہوا ہے۔ جنگ طول پکڑنے کی صورت میں صہیونی حکومت کے اقتصادی حالات مزید ابتر ہوجائیں گے جو اسرائیل کسی بھی صورت میں تحمل نہیں کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی کامیابی کا ایک راز مختصر مدت کی منصوبہ بندی میں ہے۔ 1967 میں مختصر جنگ کے بعد تین عرب ممالک کے بڑے حصے پر قبضے میں کامیاب ہوا تھا لیکن آج حالات بدل گئے ہیں۔ 365 مربع کلومیٹر پر محیط مختصر غزہ پر قبضہ کرنے میں اسرائیل اب تک ناکام رہا ہے گویا غزہ کی مقاومت نے اسرائیل کے خلاف جرائت اور بہادری کا ایک نمونہ قائم کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقاومت نے اس فوج کے مقابلے میں یہ کامیابی حاصل کی ہے جو خود دنیا کی جدیدترین فوج قرار دیتی ہے۔ جدید ترین فضائی اور بحری قوت اور امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے باوجود غزہ میں کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درحقیقت غزہ میں اسرائیلی ناکامی ہے جس کی گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
عدنان منصور نے سید حسن نصراللہ کے خطاب کے بارے میں کہا کہ انہوں نے میدان میں پیش آنے والے واقعات کے مطابق جنگ کا نتیجہ نکالیں، حزب اللہ کے سربراہ نے خود کو غزہ کی جنگ میں شامل قرار دیا ہے اور صہیونی فوج کے خلاف حملوں میں شدت لانے کا عندیہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے خوف سے اسرائیل نے اپنی فوج کا ایک چوتھائی حصہ یعنی 80 ہزار اہلکاروں کو لبنان کی سرحدوں پر تعیینات کردیا ہے اس طرح حزب اللہ نے غزہ پر سے اسرائیل کی توجہ ہٹاکر لبنانی سرحد کی جانب موڑ دیا ہے۔
سابق وزیرخارجہ نے تاکید کی کہ سید حسن نصراللہ کے مطابق اب ساری منصوبہ بندی میدان جنگ کی صورتحال کے مطابق کی جائے گی۔