ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ سازش جس کا مقصد دہشت گردی کی جنگ شروع کرنا اور درنہایت ایران کو توڑنا تھا ناکام ہوگئی جبکہ ملک میں امریکی اور اسرائیلی اسلحہ پہنچایاگیا اور عراقی کردستان میں دہشت گردوں کے 76 مراکز کو فعال کیا گیا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے دار الحکومت تہران میں محکمہ خارجہ کے دفتر میں بدھ کے روز اپنی دوسری پریس کانفرنس کی۔ تفصیلات کے مطابق پریس کانفرنس میں ایرانی اور غیر ملکی میڈیا کے صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

امیر عبد اللہیان نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ خانہ جنگی چھیڑنے اور ایران کو ٹکڑے کرنے کی بیرونی سازش ناکام بنا دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سازش کے حوالے سے مستند دستاویزات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمنوں نے ایران کو ٹکڑے کرنے کے حتمی مقصد کے تحت خانہ جنگی اور دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ایک اعلیٰ مغربی سفارت کار نے سفارتی مذاکرات کے دوران اعتراف کیا کہ امریکہ عراق میں حالیہ برسوں میں اور عادل عبدالمہدی کی وزارت عظمیٰ کے دوران ایک ایسے ملک کہ جس کی آبادی 41 میلین ہے، اس کے تحریر اسکوائر پر صرف 30,000 عراقی خواتین اور نوجوانوں کو لا کر اور سائبر اسپیس کی صلاحیتوں کو کام میں لاکر عراق میں حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوا اور عبدالمہدی نے وسیع تر مفادات کے لئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے سلسلے میں بھی امریکہ اور چند مغربی ممالک نے ملک کے اندرونی حالات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے سامنے ایسا موقع دیکھا اور اپنے مقاصد کے حصول کی امید لگا لی۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مغربی ملکوں نے ہمارے نوجوانوں کے ایک گروہ کو ورغلا کر ملک میں فسادات کو ہوا دی جبکہ انہوں نے پڑوسی عراقی کردستان کے علاقے میں بھی دہشت گردوں کو مسلح کیا۔

امیر عبداللہیان نے ایران اور عراق کی سرحدوں پر علیحدگی پسند گروہوں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کردستان کے علاقے میں دہشت گردی کے 76 مراکز فعال ہوئے اور امریکی اور اسرائیلی ہتھیاروں کو ملک میں پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عراقی حکام کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے ایران کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر عراقی فوجیوں کی تعیناتی کے ذریعے کردستان کے علاقے میں اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب تک بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے دائرہ کار میں کسی پڑوسی ملک سے ہمیں خطرہ ہے، ہماری مسلح افواج ملک کی زیادہ سے زیادہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ملک کے سفارتی اور سیکورٹی اداروں میں عراقی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔

انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مغرب اپنے انسانی حقوق کے منفی ریکارڈ کے ساتھ ایران کی انسانی حقوق کی صورتحال پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ دنوں کے دوران تین یورپی ممالک، امریکہ اور صیہونی لابی نے جو ایران کے حالات کا صحیح ادراک نہیں رکھتے، میڈیا اور اپنے سیاسی تبصروں کے دوران بہت سی مداخلتیں کیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے جن ممالک کا ذکر کیا ان میں سے بعض حکام نے اس سلسلے میں اپنی غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مشتعل بلوائیوں نے آتشیں اسلحے اور پتھراو کے ذریعے ہمارے 50 سے زیادہ پولیس اہلکار اور سیکورٹی فورسز کو شہید کیا اور کئی ہزار پولیس اور سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے، یہ انسانی حقوق کے احترام اور ایران کی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے فسادات کے دوران تحمل کا مظہر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں ہنگامہ آرائیوں کے بعض دنوں کے دوران امریکہ سمجھ رہا تھا کہ ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں سے ہم اپنی ریڈ لائنز عبور کر لیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ فسادات اور نئی عائد کردہ پابندیوں کا مقصد ایران پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ مذاکرات میں اپنے مطالبات سے دستبردار ہو جائے لیکن امریکیوں کو اب سمجھ آ گئی ہو گی کہ ایران اپنی ریڈ لائنز کو عبور نہیں کر رہا۔

امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے اور پابندیوں کو ہٹانے کے لیے جوہری مذاکرات جاری رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایرانی قوم کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ طاقت کے ساتھ حاصل کیا جا سکے۔

یوکرین جنگ میں روس کو استعمال کرنے کے لیے ایران کی جانب سے فوجی مدد کے الزامات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ایران نے یوکرین کی جنگ کے آغاز سے 11 ماہ قبل روس کو چند ڈرون فراہم کیے تھے جبکہ کہ یوکرین کی جانب سے کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے کہ ان ڈرونز کو روس نے جنگ میں استعمال کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے وزیر خارجہ نے مجھے ٹیلی فون پر گفتگو میں بتایا کہ ایک ڈرون کو یوکرین کی افواج نے بحفاظت پکڑا ہے جو کہ روسی ہے لیکن یہ ایرانی شاہد 136 ڈرون سے ملتا جلتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران اپنے موقف پر قائم ہے۔ ہم جنگ کو حل نہیں سمجھتے اور امن و صلح کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم تین معاملات پر امریکی فریق سے متفق نہیں ہیں جبکہ تین یورپی ممالک ان مسائل پر ایران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل اور اینریکے مورا اس حوالے سے کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ جوہری ایجنسی کے ساتھ باقی ماندہ مسائل کو حل کرنا ہے اور دوسرا مسئلہ اقتصادی ضمانتوں سے متعلق ہے اور ہم نے اس مسئلے کو وضع کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکہ پر واضح کردیا تھا کہ ایجنسی نے تکنیکی راستے سے ہٹ کر سیاسی راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایجنسی کو تکنیکی سمت میں کام کرنے کا مشورہ دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن جو واقعات رونما ہوئے اور جب کہ نائب وزرائے خارجہ اور ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ ویانا گئے تھے اور ہم ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ ایک روڈ میپ پر پہنچ گئے تھے اور ایجنسی کے اہلکاروں نے کہا تھا کہ اب کوئی قرارداد نہیں آئے گی اور ایجنسی کے اہلکار ایران کا دورہ کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں اچانک ہمیں ایرانی قوم کے خلاف ہائبرڈ جنگ میں ایک نئی قرارداد کا سامنا کرنا پڑا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم نے امریکی حکام اور تین یورپی ممالک کو بتایا دیا ہے کہ آپ پر کیسے اعتماد کیا جائے جبکہ آپ کو ایجنسی کے تکنیکی رویے کی ضمانت فراہم کرنی تھی، آپ ایجنسی کو سیاسی طور پر غلط استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جے سی پی او اے مذاکرات میں کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے حتمی متن مضبوط ہونا چاہیے اور اس میں ان تینوں امور کو شامل ہونا چاہیے۔

امیرعبداللہیان نے مزید کہا کہ تیسری بات یہ ہے کہ اقتصادی ضمانت کے حوالے سے مغربی فریقوں کی طرف سے کھیلا جانے والا کھیل اور تیسرے فریق پر پابندیوں کی توسیع ہی پابندیوں کے جاری رہنے کی وجہ ہے، انہیں ایک متفقہ طریقہ کار کے تحت اس سلسلے کو ختم کرنا ہوگا۔ 

انہوں نے مشرق وسطیٰ کے مسائل پر مزید کہا کہ ترک اور شامی حکام کے درمیان سیکورٹی مذاکرات ہوئے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ سٹریٹجک شراکت داری گزشتہ سال عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہوئی جبکہ صدر رئیسی کا دورہ چین ایجنڈے میں شامل ہے۔

لیبلز