شہید صالح العاروری نے بچپن اور جوانی حفظ قرآن اور تبلیغی سرگرمیوں میں گزارنے کے علاوہ باقی پوری زندگی فلسطین اور بیت المقدس کے لئے وقف کردی تھی۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شہداء زندہ ہیں۔ وہ اپنی شہادت کے بعد بھی سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی حوالے سے زندہ انسانوں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ ان کی تاثیر ختم نہیں ہوتی ہے۔ وہ معاشرے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کے زندہ اور تاثیر گذار ہونے کی وجہ سے ہی کہا گیا کہ زندہ قاسم سلیمانی اور زندہ ابومہدی المہندس سے زیادہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی تاثیر گزار ہیں۔

شہداء کا اثر صرف اس سرزمین تک محدود نہیں ہے جہاں وہ رہتے یا لڑتے تھے کیونکہ شہداء نے مختلف ممالک جیسے افغانستان، یمن، لبنان، عراق، پاکستان، شام اور نائیجیریا میں جارحیت اور سامراجی قبضے کے خلاف اعلیٰ اہداف حاصل کیے۔ شہادت کے بعد بین الاقوامی سطح پر ان کے اثرات محسوس کئے گئے۔ آج ہم انگلینڈ، امریکہ، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا، اردن، سویڈن اور آئرلینڈ جیسے ممالک میں اس کا اثر دیکھ سکتے ہیں جہاں آزادی کے متلاشی طلباء اور فلسطین کے حامی، فلسطینی قوم کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے کرتے ہیں اور غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کی مسلسل مذمت کرتے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کے بعد بہت سے ممالک مخصوصا مشرق وسطیٰ میں مقاومت معاشرے میں سب سے زیادہ زیربحث آنے والے مسائل میں شامل ہوگئی ہے۔ یمن سے لے کر فلسطین تک صہیونی حکومت کے خلاف ہونے والے مزاحمتی اقدامات موضوع بحث بن رہے ہیں۔

چونکہ ہر معاشرے کو اپنے مقاصد اور اقدار تک پہنچنے کے لیے نمونہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہداء معاشرے میں رہنے والوں مخصوصا جوان طبقے کے لئے بہترین نمونہ اور رول ماڈل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ بہت سے شہداء کی تاریخ نشیب و فراز سے لبریز ہے جس سے عام لوگ مخصوصا جوان نسل واقف نہیں۔ اسی وجہ سے رہبر معظم شہداء کی یاد زندہ رکھنے کی مسلسل تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہداء کی یادوں کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہر نیوز میں شہداء طوفان الاقصی کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ معروف شہداء کی زندگی کے بارے میں قارئین کو کچھ آگاہی حاصل ہوجائے۔

مقدمہ اور پہلے مرحلے میں ہم نے شہید "مشتاق السعیدی" کی زندگی کا جائزہ لیا جس کا نام "ابوتقوا" ہے۔

دوسری قسط میں "شہید صالح العاروری" کے سوانح حیات کا جائزہ لیا جائے گا۔

عارورہ میں پیدائش، شام اور ترکی میں جلاوطنی

صالح محمد سلیمان العاروری 19 اگست 1966 کو رام کے قصبے عارورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے الخلیل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

العاروری فلسطین کے معروف سیاسی اور جہادی رہنما تھے۔ وہ القسام بریگیڈ کے بانیوں میں سے تھے اور اس گروہ کے مغز متفکر شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے تقریبا 18 سال صہیونی جیل میں گزارے اس کے بعد فلسطین سے ان کو جلاوطن کیا گیا۔ آخری مرتبہ حماس کے اس کمانڈر کو 2010 میں جیل سے رہا کرکے شام جلاوطن کیا گیا جہاں انہوں نے تین سال قیام کیا۔ کچھ سال ترکی میں رہے۔ قطر اور ملائشیا میں قیام کے بعد زندگی کے آخری ایام میں بیروت کے علاقے ضاحیہ میں آکر رہائش پذیر ہوئے۔

العاروری کو 2010 میں حماس کے سیاسی شعبے کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا اور 9 اکتوبر 2017 کو حماس تحریک نے اعلان کیا کہ وہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے نائب کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔

سنہ 2014 میں مغربی کنارے میں تین صیہونی آباد کاروں کو اغوا کیا گیا تھا اور صیہونی حکومت نے العاروری پر اس کارروائی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے رام اللہ میں ان کے گھر کو تباہ کر دیا تھا۔

یکم نومبر 2023 کو طوفان الاقصی کے دوران صیہونی حکومت نے ایک بار پھر رام اللہ میں ان کے خالی مکان کو تباہ کردیا۔ صالح العاروری 2 جنوری 2024 کو بیروت کے جنوب میں غاصب صہیونی حکومت کے ڈرون حملے میں بالآخر شہید ہو گئے۔

فلسطینی مقاومت کے مغز متفکر پر حملے کی وجوہات

2 جنوری 2024 کو لبنان کے شہر بیروت کے محلے ضاحیہ پر ایک فضائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں حماس کے سیاسی دفتر کے نائب اور 7 اکتوبر کے حملے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک صالح العاروری شہید ہوگئے۔ شہید صالح العاروری پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں چند قابل غور نکات ہیں جنہیں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔

1۔ جنگی میدان میں صیہونی حکومت کی شکست کے بعد اس کی ترجیح مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر حماس کے کمانڈروں کو قتل کرنا بن گئی اور العاروری کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

2. صیہونی حکومت نے غزہ کے اندر حماس کے لیڈروں کو قتل کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے فلسطین سے باہر حماس کے کمانڈروں کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔

3۔ العاروری وہ شخص ہیں جسے صیہونی حکومت نے کئی بار قتل کرنے کا دعوی کیا تھا اور وہ اپنے روابط اور جائے پیدائش کی وجہ سے مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح کہ صہیونیوں نے بارہا اعلان کیا ہے کہ العروری حماس کا سب سے خطرناک رکن ہے۔

4. العروری وہ شخص ہیں جس نے غرب اردن، غزہ اور لبنان میں مقاومتی گروہوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

5۔ صالح العاروری حماس کی ان اہم شخصیات میں سے ایک تھے جن کے حزب اللہ اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ غرب اردن میں حماس کے اعلی کمانڈر تھے اور اسے مسلح کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ العاروری کا ذکر حماس کے شیڈو کمانڈر کے طور پر کیا گیا۔

امریکہ اور صہیونی حکومت کا مذموم فیصلہ

القسام بریگیڈ کے کمانڈروں میں سے ایک عزام الاقرع اور محمد الرئیس کے ساتھ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں غاصب صہیونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے العاروری کو جہادی تنظیموں کے درمیان وحدت ایجاد کرنے کے اہم کردار کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

جہادی تنظیموں کے درمیان وحدت ان حکمت عملیوں میں سے ایک ہے جس پر حماس تحریک گزشتہ چند سالوں سے پوری سنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا ہے جس کا ایک مظاہرہ ہم نے مئی 2021 میں ہونے والی "شمشیر مقدس آپریشن" میں دیکھا تھا۔

حماس نے العاروری کی شہادت کی خبر کا اعلان ان کی گرانقدر کاوشوں کو یاد کرتے ہوئے کیا۔ طوفان الاقصی ان زندگی کا آخری آپریشن تھا۔

العاروری کے وہ منصوبے جن کی وجہ سے صہیونی حکومت پریشان تھی اور اس کو اپنا دشمن بنایا درج ذیل ہیں:

1۔ مغربی کنارے کو مسلح کرنا: یہ ایک ایسا مشن تھا جو العاروری اسی کی دہائی کے اواخر میں شروع کیا تھا۔

2. فلسطینیوں کے درمیان اندرونی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش۔

3۔ عرب ممالک اور خطے میں جہادی تنظیموں کے درمیان فلسطینی مقاومت کے لئے حمایت کی فضا قائم کرنا۔

فلسطین کے لیے چار دہائیوں کی بھرپور خدمات

اگر ہم العاروری کے بچپن اور جوانی کے سالوں کو چھوڑ دیں جو انہوں نے قرآن حفظ کرنے اور مذہبی تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے مسجد میں گزارے تو اس شخص نے اپنی زندگی کا دو تہائی سے زیادہ حصہ حماس میں گزارا۔ وہ مغربی کنارے میں اس کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے چھ سال یونیورسٹی میں تحریک کی تنظیمی سرگرمیوں میں گزارے اور اس کے بعد وہ اٹھارہ سال تک صیہونیوں کے ہاتھوں قید رہے اور تیرہ سال جلاوطنی میں گزارے۔

العاروری اگست 1966 میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ شہید العروری کی بہن دلال العاروری نے "العربی الجدید" کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے شہید العاروری کے بارے میں بتایا کہ وہ بچپن میں ہی اپنے والد کے ساتھ جو مسجد کے متولی تھے، خانہ خدا میں حاضری دیتے تھے۔ انہوں نے حفظ قرآن کے پروگراموں اور مذہبی تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ میرے بھائی صالح کو بچپن سے ہی مسجد سے محبت تھی اور وہ اپنے بچپن یا جوانی میں زیادہ تر وقت وہاں گزارتا تھا۔ ان کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ مسجد کے تمام کام مخفیانہ طور پر کرتے تھے۔

العاروری کا گھر میڈیا والوں کی رفت و آمد کی جگہ

قصبے میں موجود ان کا وہ جگہ تھی جہاں میڈیا کے لوگ رفت و آمد کرتے تھے۔ اس گھر کی سادگی اس حد تک حیران کن تھی کہ ہر آنے والے کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا تھا کہ کیا یہ گھر تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ کا ہے؟ شہید العاروری کی بہن نے کہا: "ہماری پرورش اس طرح ہوئی ہے کہ ہم سادہ زندگی گزاریں اور دنیوی زرق وبرق سے دور رہیں۔ صالح سادہ زندگی بسر کرتا تھا اور ہر لحاظ سے متقی تھا اور اسے دنیا اور اس کی رنگینیوں سے کوئی لگاؤ ​​نہیں تھا۔

ایک مصنف اور محقق ساری عرابی نے العربی الجدید کے رپورٹر کو بتایا: "شہید عادل عوض اللہ اور ابراہیم حامد کے ساتھ العاروری مقبوضہ مغربی کنارے اس وقت ان کا رابطہ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق سے تھا۔

مذکورہ مصنف کے مطابق العاروری نے تفتیش کے دوران مزاحمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ 2007 میں صہیونیوں نے العاروری کو تین ماہ کے لیے رہا کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنی منگیتر سے شادی کی جو بارہ سال سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے بعد تین سال کی مدت کے لیے دوبارہ صہیونی جیل میں گئے پھر صیہونیوں نے اسے فلسطین سے باہر جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا اور جلاوطنی کا سلسلہ شام سے شروع ہو کر ترکی، قطر اور لبنان تک جاری رہا۔

تین صیہونی آباد کاروں کے اغوا کی کارروائی

80 کی دہائی کے اواخر میں انہوں نے القسام کے گروہ تشکیل دیے اس کے واضح نتائج میں سے ایک صہیونی آباد کاروں کا الخلیل میں اغوا ہے جو جون 2014 میں انجام دیا گیا۔ حماس کی جانب سے مخفی رکھنے کے باوجود العاروری نے کہا کہ القسام اس کاروائی میں ملوث ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تین صیہونی آباد کاروں کو پکڑنے کا مقصد انہیں صہیونی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے لیے استعمال کرنا ہے۔

القسام بٹالین کے جنگجوؤں کے ذریعہ آباد کاروں کے اغوا کے دعوے سے محمود عباس طیش میں آگئے اور انہوں نے حماس پر ان کے خلاف سازش کا الزام لگایا۔ البتہ مذکورہ آپریشن کی ذمہ داری کے حوالے سے العروری کا موقف برقرار رہا اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جن جوانوں نے صہیونی آباد کاروں کو اغوا کرنے کی کارروائی کی، وہ القسام کے رکن تھے۔

22 سال کی قید اور بیرون ملک جلاوطنی کے بعد تین صہیونی آباد کاروں کا اغوا ایک بار پھر میڈیا کا موضوع بن گیا۔ امریکہ نے اس معاملے میں کود پڑا اور نومبر 2018 میں امریکہ نے العاروری کے بارے میں اطلاعات دینے پر 50 لاکھ کے انعام کا اعلان کیا۔

غزہ کی پٹی میں مقاومت کی حمایت

غزہ کی پٹی میں مقاومت کی حمایت کے حوالے سے العاروری نے 1992 میں خصوصی طور پر شہید "عقل" کے ساتھ تعاون شروع کیا اور اس شہید کا استقبال کیا اور اسے حملہ آوروں کی نظروں سے دور جگہ پر پناہ دی۔ انہوں نے 2011 میں ہونے والے معاہدے میں اہم کردار ادا کیا جس کے تحت شہید یحیی السنوار رہا ہوگئے۔

کرشماتی شخصیت

صیہونیوں کے خلاف محاذ جہاد میں رہنے کے بعد العاروری نے اسیری برداشت کی اور 2010 میں مغربی کنارے سے جلاوطن ہونے کے بعد انہوں نے جلد ہی تحریک حماس میں قیادت کا کردار ادا کرنا شروع کیا اور غرب اردن کے مختلف حصوں میں مختلف آپریشنز کے انچارج تھے۔ وہ مغربی کنارے میں مزاحمتی گروپوں کو مسلح کرنے اور آباد کاروں کے خلاف حملوں میں کردار ادا کرنے کے الزام میں قابضین کو مطلوب تھا، جن میں سے زیادہ تر حماس کے ارکان نے منصوبہ بندی کی تھی۔

دسیوں ہزار فلسطینی قیدیوں سے ملاقات

جنگی قیدیوں کے ماہر اور فلسطینی حریت پسند فواد خفش، جو 2003 میں النقب جیل میں العاروری کے ساتھ ایک سیل میں قید تھے، نے کہا کہ معاہدے کے بعد گرفتار ہونے والے اکثر فلسطینیوں پر العاروری سے رابطے کے الزامات تھے۔

اسیری کے اٹھارہ سالوں میں العاروری نے قید تنہائی میں رہنے کے باوجود دسیوں ہزار اسیروں سے ملاقات کی۔ العاروری قرآن کے پڑھنے کے شوقین تھے۔ ان کی کلاسوں اور علمی نشستوں میں شریعت سے لے کر فلسفہ اور طبیعیات تک سائنس کے مختلف موضوعات زیر بحث آتے تھے۔ سینکڑوں فلسطینی قیدی ان کی آمد کے منتظر ہوتے تھے۔

وہ صبح کے وقت فلسطینی قیدیوں کو عبرانی اخبارات کا ترجمہ سناتے تھے۔ 

حماس کی آخری صدارتی انتخابات میں وہ شہید ہنیہ کی جگہ لینے کے لئے مضبوط ترین امیدوار تھے کیونکہ وہ شہید ہنیہ کے نائب اور غرب اردن میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ تھے۔

غرب اردن، غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں اتحاد کا قیام

اس حقیقت کے باوجود کہ غرب اردن قابضین کے براہ راست اقدامات اور ان کی مسلسل فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی صیہونیوں کے ساتھ ہم آہنگی کی وجہ سے ایک "جھلسی ہوئی زمین" بن چکا ہے۔ لیکن العاروری پچھلے کچھ سالوں میں حماس کو اس حصے میں بھی نمایاں کیا۔ یہ ان حالات میں ہوا جب فلسطینی اتھارٹی حماس کو اپنا پہلا دشمن سمجھتی ہے اور یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں تنظیم کے اراکین کا تعاقب کیا جاتا ہے۔

العاروری نے تحریک جہاد اسلامی کے ساتھ اپنی تنظیم کو جوڑ دیا جس نے پہلے ہی جنین بریگیڈ قائم کیا تھا۔ العاروری کے اس اقدام کے بعد شمشیر قدس آپریشن کے بعد مقاومت دوبارہ سر اٹھانے لگی اور غرب اردن اور غزہ کے درمیان وحدت اور ہماہنگی کی فضا قائم ہوئی۔

اس اتحاد کے علاوہ لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں "عرین الاسود" گروپ (جنگل کے شیر) کی طرف سے نکالی جانے والی ریلیوں میں حماس کی حمایت کی گئی اور اس نعرے کو سب سے زیادہ دہرایا گیا: "ہم محمد الضیف کے سپاہی ہیں" اور یہ محمد الضیف کوئی اور نہیں بلکہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر انچیف ہیں۔

العروری کے خلاف صہیونیوں کی اشتعال انگیز کارروائیاں طوفان الاقصی سے پہلے ہی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں، یہاں تک کہ نیتن یاہو نے ان پر قتل کی دھمکیاں دینے اور مغربی کنارے میں مسلح مزاحمتی کارروائیوں کو بڑھانے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

اس کے جواب میں العاروری نے فوجی وردی میں اپنے سامنے ایم 16 رائفل اور اس کے پیچھے فلسطینی پرچم کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے تصویر شئیر کی۔

العاروری اور اندرونی تقسیم کا خاتمہ

گزشتہ چند سالوں میں الفتح تحریک کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سکریٹری جبریل الرجوب اور العاروری نے اندرونی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اہم کوششیں کیں۔ لیکن فلسطین کے اندر اور باہر بدخواہوں کی طاقت زیادہ تھی اس لئے یہ کوششیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔

العربی چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں الرجوب نے العروری کو ایک ممتاز قوم پرست رہنما قرار دیا اور کہا کہ وہ ایسے میکانزم، اصولوں اور بنیادوں کو تیار کرنے میں میرے ساتھی تھے جو اندرونی تقسیم کو ختم کر کے اتحاد اور تعاون کو فروغ دیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ جبریل رجوب نے العاروری کی شہادت کے موقع پر تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کو تعزیتی پیغام پیش کیا۔ تاہم تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی اس حوالے سے کوئی تعزیتی بیان جاری کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی اور اس تحریک نے ایک عمومی بیان جاری کرنے پر اکتفاء کیا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے بھی اس موقع پر تعزیت نہیں کی اور ان کے قتل کی مذمت کرنے سے بھی گریز کیا جب کہ اسی شخصیت نے جاپان میں زلزلے کے متاثرین کے لیے تعزیت کا پیغام جاری کیا۔ . فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے بھی اس قتل پر خاموشی اختیار کی۔

الفتح تحریک کے ایک رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر العربی الجدید کو بتایا کہ جبریل رجوب کی العاروری سے قربت ابو مازن (محمود عباس) کے ساتھیوں کے غصے اور اس کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں کا سبب بنی کیونکہ العاروری اور یحیی السنوار فلسطینیوں کے داخلی انتشار اور تقسیم کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے اور الفتح کو دوستی کے پیغامات ارسال کرنے کے لئے ہر طریقہ استعمال کرتے تھے۔

2002 میں عسقلان کی صہیونی جیل میں العروری کے ساتھی قیدی نے اپنا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے العربی الجدید کو بتایا کہ میں شیخ العاروری کے پاس بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ میں رام اللہ میں یاسر عرفات کی رہائش گاہ پر حملے کی خبریں سن رہا تھا۔ العاروری کو بہت غصہ آیا۔ خدا کی قسم میں نے اس کے منہ سے یہ سنا کہ اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو یاسر عرفات کے دفاع کے لیے رام اللہ جاتا اور صہیونیوں کو اس تک پہنچنے نہیں دیتا، چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں ان کی باتوں سے حیران ہوا اور میں نے ان سے پوچھا، شیخ صاحب، آپ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں، جبکہ عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔؟! العاروری کا جواب یہ تھا کہ اگر صہیونیوں نے آج رام اللہ میں ان کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا ہے اور وہ اسے قتل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ ان کی ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے الاقصیٰ انتفاضہ کے دوران جو صحیح اقدامات کیے تھے اور الفتح کے ارکان کو اس انتفاضہ میں شرکت کی اجازت دی تھی اور انہیں ایسا کرنے کی ترغیب بھی دی تھی۔ عرفات کی تذلیل کر کے وہ ہم سب فلسطینیوں کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

فلسطینی دھڑوں کے درمیان وحدت کا ماسٹر مائنڈ

تحریک حماس کے بعض حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ العاروری کا قتل امریکہ اور صہیونی حکومت کا مشترکہ فیصلہ تھا اور اس کا بنیادی ہدف فلسطینی دھڑوں کے اتحاد کے سلسلے میں حماس کی کوششوں کو ناکام بنانا تھا۔

صیہونی حکومت کے امور کے ماہر عادل شدید نے العربی الجدید کو بتایا کہ العاروری کا قتل امریکہ اور صیہونی حکومت کا مشترکہ فیصلہ تھا کیونکہ وہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد کے منصوبے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ایک ایسا اتحاد جس کا عملی نمونہ ہم اس وقت لبنان، شام، عراق اور یمن میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ صیہونی حکومت اس کا کھل کر اظہار نہیں کرتی ہے۔

صیہونی حکومت نے العاروری کو قتل کرکے غرب اردن میں مقاومتی جال پھیلانے کی حماس کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ یہ بنیادی ڈھانچہ حزب اللہ اور پاسداران انقلاب اسلامی کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ تشکیل دینا جانا تھا۔ صہیونی حکومت نے اس سے پہلے جنوبی لبنان اور شام میں فلسطینی مزاحمت کے لیے جدید مقاومتی انفراسٹرکچر بنانے کے منصوبے کو بھی ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔

صیہونی حکومت کے امور کے ماہر نے مزید کہا کہ آج صیہونی حکومت اور امریکہ خود کو ایک بڑے بحران میں مبتلا ہیں کیونکہ مقاومتی تنظیموں کے درمیان اتحاد سے ان کے استعماری منصوبے خطرے میں پڑ گئے  ہیں۔1948 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مسئلہ فلسطین اپنی عرب اور اسلامی رنگ میں واپس آیا اور فلسطین کے دفاع میں ایک فوجی اتحاد تشکیل پارہا ہے جو کہ ایک خواب لگتا ہے۔

عادل شدید نے کہا مقاومتی تنظیموں کے درمیان ہماہنگی اور اتحاد عرب حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے مستقبل کے لیے بھی خطرہ ہے اور یہ تل ابیب اور عرب ممالک کے درمیان طے پانے والے سمجھوتہ کے معاہدوں کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان معاہدوں کا مقصد فلسطین کو تنہا کرنا ہے۔ حالیہ سالوں میں آنے والی اس تبدیلی نے مسئلہ فلسطین کو دوبارہ منظر عام پر لایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور اس کی حمایت کرنے والی حکومتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے مخصوصا ان علاقائی حکومتوں کے لئے مسئلہ بن سکتی ہے جنہوں نے اپنے وجود اور تسلسل کو واشنگٹن اور تل ابیب کی مرضی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔