مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیکس؛سید نثار علی ترمذی: امام خمینیؒ وہ شخصیت ہیں کہ جنھوں نے اس دور میں تحریک وحدت امت محمدیؐ کا احیاء کیا۔ آج جو فکر اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے رائج ہے، اس کی بازگشت امام خمینی کی طرف ہے۔ بالخصوص اہل تشیع میں اس فکر کو پروان چڑھانے میں آپ کی تعلیمات کا اثر ہے۔ اگر اس سے قبل یہ تحریک انفرادی سطح پر جاری تھی تو اب یہ اجتماعی و ادارتی سطح تک پہنچ گئی ہے۔
ولادت: آپ بیس جمادی الثانی1320ھ بمطابق 24 دسمبر 1902ء کو ایران کے مرکزی صوبے خمین میں پیدا ہوئے۔
والد بزرگوار: آپ کے والد بزرگوار آیت اللہ العظمیٰ سید مصطفیٰ مرحوم جو آیت اللہ العظمیٰ میرزائے شیرازی کے ہم عصر تھے۔ نجف اشرف میں اسلامی و دینی تعلیمات کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور واپس آکر خمین میں تبلیغ میں مشغول ہوئے۔
دور یتیمی: جب آپ ابھی پانچ ماہ کے تھے کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے آپ کے والد بزرگوار کو شہید کر دیا۔
بچپن: آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنی والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون جو کہ خود بھی اہل علم میں سے تھیں اور اپنی پھوپھی کے دامن عافیت میں حاصل کی، لیکن پندرہ سال کے تھے کہ آپ ان دونوں کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔
تعلیم: آیت اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کے دور میں قم تشریف لے گئے۔ جن اساتذہ سے دینی و حوزوی علوم حاصل کئے، ان میں آقا میرزا محمد علی ادیب تہرانی، آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی، آیت اللہ العظمیٰ عبدالکریم یزدی حائری تھے۔
جدوجہد: آپ نے دیگر مجتہدین کے ہمراہ کوشش کی کہ حوزہ علمیہ کی زعامت کے لئے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی قم تشریف لے آئیں۔ یہ کوشش کامیاب ٹھہری۔
1961ء میں صوبائی اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران علماء کو بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ یہ ملک گیر تحریک کا نیا باب ثابت ہوا۔ اس تحریک نے جو پندرہ خرداد کو شروع ہوئی، اس نے امام خمینیؒ کی واحد قیادت اور اسلامی تشخص کو اجاگر کیا جو انقلاب اسلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ امام خمینیؒ نے شاہ کے انقلاب سفید کو سیاہ انقلاب قرار دیا۔ مگر شاہ نے انقلاب سفید کے چھ نکات کو آگے بڑھانے کے لئے ریفرنڈم کرائے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ امام خمینیؒ نے اس کی پر زورمخالفت کی اور اسے امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو آگے بڑھانے کا اقدام قرار دیا اور عید نوروز کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور مدرسہ فیضیہ مظلوم طلباء کے خون سے رنگین ہوا۔
اس اہم موقع پر آیت اللہ العظمیٰ محسن الحکیم نے تجویز کیا کہ علماء کرام نجف ہجرت کریں، مگر امام خمینیؒ نے جواب میں کہا کہ حوزہ کو خالی چھوڑ دینا مناسب نہیں کہ علماء ایک ساتھ نجف چلے جائیں۔ شاہ کے مظالم نے حکومت کے خلاف جذبات کو عوامی تحریک میں بدل دیا۔ عاشورہ کی شام امام خمینیؒ نے فیضیہ میں تاریخی خطاب فرمایا۔ شاہ نے تحریک کو دبانے کے لیے امام خمینیؒ اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، مگر عوام کے دباؤ کی وجہ سے پندرہ دن بعد رہا کر دیا۔ امام خمینیؒ نے اپنی تحریک کو جاری رکھا۔ آپ کے انقلاب آفرین خطابات متواتر شاہ کے خلاف عوام کو بیدار و منظم کرنے میں مؤثر ثابت ہو رہے تھے۔
4 نومبر 1964ء ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور اخبارات میں چھپوا دیا کہ حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے وجہ سے امام خمینیؒ کو ملک بدر کر دیا گیا۔ پورے ملک میں احتجاجات شروع ہوگئے۔ جلاوطنی کے دوران آپ کو موقع ملا کہ آپ نے اپنی معروف کتاب ’’تحریرالوسیلہ‘‘ کی تدوین کا کام شروع کیا۔ آپ ترکی کے راستے سے عراق پہنچے۔ امام خمینیؒ نے تمام تر پریشانیوں و مشکلات کے باوجود نومبر 1965ء میں نجف اشرف میں مسجد شیخ انصاری میں دروس خارج کا آغاز کر دیا، جو آپ کی عراق میں سے ہجرت تک جاری رہا۔ آپ نے ایران میں عوام اور اپنے ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے اپنا رابطہ برقرار رکھا۔
عراقی حکومت نے شاہ کے دباؤ اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے امام خمینی (رح) کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ آپ نے اپنی اگلی منزل کے لئے قدرے آزاد ملک فرانس کا انتخاب کیا، جہاں سے عالمی میڈیا کے ذریعہ اپنا پیغام پوری دنیا تک پہنچا سکیں۔ ایرانی عوام نے اپنے جذبوں، قربانیوں اور جدوجہد کے ذریعے سے شاہ کو ایران سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ ایران کی سرزمین اپنے حقیقی رہنماء کا انتظار کرنے لگی۔ جب امام خمینیؒ نے سرزمین انقلاب پر اپنا قدم رکھا تو پوری فضا صلی علی محمد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس طرح انقلاب اسلامی 11 فروری 1979ء کو کامیابی سے ہم کنار ہوگیا۔ آپ دس سال سے زائد عرصہ تک انقلاب اسلامی و حکومت اسلامی کی سرپرستی فرمائی۔
طویل ترین جنگ میں استقامت، استعمار عالمی کو پوری قوت سے للکارا، ملک کو اسلامی دستور دیا۔ اداروں کی تشکیل اور انہیں مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ آخرکار وصال یار کا وقت آپہنچا۔ 4 جون 1989ء محبوب سے وصال کا لمحہ تھا۔ وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا، جس نے لاکھوں کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا۔ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا کہ ’’پرسکون دل، مطمئن قلب، شاد روح اور پرامید ضمیر کے ساتھ خدا کے فضل و کرم سے بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں۔ امام خمینیؒ کا جنازہ دنیا کا سب سے بڑا جنازہ قرار پایا۔
افکار وحدت: امام خمینیؒ کے مکمل افکار کا احاطہ کرنا یا ان کا خلاصہ پیش کرنا ممکن نہیں، مگر آج کے سلگتے ہوئے مسئلہ فرقہ واریت، تکفیریت اور اتحادبین المسلمین کی ضرورت پر امام خمینی کے افکار سے خوشہ چینی کی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ تمام امت متحد ہو اور مشترکہ دشمن کے مقابلے میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرے۔ یہاں پر چند نکات ملاحظہ ہوں۔
۱) اگر علمائے اہل سنت کے نزدیک ذی الحجہ کا چاند ثابت ہو جائے اور وہ حکم دیں کہ آج ذی الحجہ ہے تو شیعہ حجاج کو ان کی اتباع کرنی چاہیئے اور دوسرے مسلمانوں کی طرح انہیں بھی عرفات روانہ ہونا چاہیئے اور ان کا حج صحیح ہوگا۔
۲) مسجد حرام یا مسجد نبوی سے نماز جماعت شروع ہونے کے وقت خارج ہونا جائز نہیں اور شیعوں پر واجب ہے کہ وہ اہل سنت کے ساتھ نماز باجماعت پڑھیں۔ بھائی بھائی بنیں۔
۳) اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی اسی میں ہے کہ سب آپس میں ایک ہو جائیں۔ روایت میں حضرت رسول اکرمؐ سے وارد ہوا ہے کہ مؤمنین ید واحدہ (ایک ہاتھ) ہیں۔ رسول اکرمؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ دو ہاتھ ہیں۔ آپ کو چاہیئے کہ اپنے اتحا د و یکتائی کو اس مرحلے تک پہنچائیں کہ پھر اپنے درمیان جدائی کا تصور نہ کرسکیں۔ یہ اسلام کا حکم کہ آپ بھائی بھائی بنیں۔ اس بھائی چارے اور وحدت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی طاقت آپ پر مسلط نہ ہوسکے گی۔ جب تک آپ کی توجہ اور توکل کا مرکز خدا کی ذات ہے، آپ کے مقابلے میں آنے والی ہر قوت و طاقت نیست و نابود ہے۔
4) اختلاف نہ ہوتا: جب اس چیز کا احساس کریں کہ ہم خدمت گزار و خادم اسلام ہیں۔ جب یہ طے پا جائے کہ ہم نے اسلام کی خدمت کرنا ہے تو پھر اختلافات رونماء نہیں ہوں گے۔ آپ اس بات کو جان لیں کہ اگر تمام انبیاء ایک ہی زمانے میں جمع ہوتے تو ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوتا۔
5) شیطان کا ہاتھ ہے: حفظ اسلام حفظ وحدت پر منحصر ہے اور ہمیں چاہیئے کہ اس بات کا خیال رکھیں، کیونکہ حفظ وحدت اور عوام کی نگہداری ہمارا فرض ہے کہ اگر کسی شہر میں اختلاف ہوتا ہے تو جان لیں کہ اس میں شیطان کا ہاتھ ہے اور ہمیں چاہیئے کہ اس کا ازالہ کریں اور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ خدانخواستہ کسی وقت شہر یا دیہات میں کوئی اختلاف واقع ہو۔ علماء کرام اپنی قوتوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک ساتھ میدان میں رہیں اور کنارہ کشی اختیار نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کی حفاظت کریں اور حفاظت کنارہ گیری سے ممکن نہیں۔
اختلافِ فتویٰ دلیل افتراق نہیں۔ کچھ مسلمان شیعہ ہیں، کچھ حنفی ہیں، کچھ حنبلی اور کچھ اہل حدیث، اصلاً اس طرح کی تقسیم اول ہی سے درست نہ تھی۔ ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں سب اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ان مسائل کو اٹھنا نہیں چاہیئے۔ ہم سب بھائی ہیں اور سب اکٹھے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ آپ کے علماء نے کوئی ایک فتویٰ دیا اور آپ نے علماء کی تقلید کی اور آپ حنفی ہوگئے۔ بعض نے شافعی کے فتوے پر عمل کیا اور ایک گروہ نے حضرت صادق کے فتوے پر عمل کیا، وہ شیعہ وہ ہوگئے۔ یہ دلیل اختلاف نہیں۔ ہمیں آپس میں اختلاف و تضاد نہیں رکھنا چاہیئے۔ ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔
شیعہ سنی بھائیوں کو ہر اختلاف سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ آج ہمارے درمیان اختلاف صرف ان کے مفاد میں ہے، جو شیعہ مذہب کو مانتے ہیں، نہ حنفی مذہب اور نہ کسی اور مذہب کو۔ وہ چاہتے ہیں کہ نہ یہ رہے اور نہ وہ رہے۔ ان کی کامیابی اسی میں ہے کہ آپ اور ہمارے درمیان اختلاف پیدا کر دیں۔ ہمیں اس امر کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ ہم سب اہل قرآن ہیں۔ ہم سب اہل توحید ہیں اور چاہیئے کہ قرآن اور توحید کے لئے زحمت اٹھائیں اور خدمت کریں۔ امام خمینیؒ کے افکارِ وحدت بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے جس خلوص کے ساتھ وحدت امت کی خدمات انجام دیں اور کوششیں کیں، وہ اس دور کا روشن باب ہے۔
امام خمینیؒ نے وحدت امت کے لئے متعدد اقدامات کئے، جن میں دو کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
۱) ہفتہ وحدت: ۱۲ ربیع الاول تا ۱۷ ربیع الاول کو ہفتہ وحدت قرار دے کر عید میلادالنبی کو وحدت کا رنگ دے دیا۔
۲) یوم القدس: جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دے کر فلسطین کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ ہر سال دنیا بھر میں مسلمان اس دن کو مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔
3) اسی طرح رشدی ملعون کے قتل کا فتویٰ دے کر مسلمانوں کے دل آواز بنے۔اللہ ہمیں اتحاد وحدت کے لئے کام کرنے کی توفیق عنائے فرمائے۔ آمین ثم آمین