مہر خبررساں ایجنسی نے حوزہ نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ لکھنؤ کے حسین آباد میں واقع تاریخی دیدہ زیب حسینیہ محمد علی شاہ (چھوٹا امام باڑہ) شہدائے خدمت کی یاد میں غرق نظر آیا جہاں عین الحیات ٹرسٹ،ادارہ علم و دانش اور حیدری ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے علاوہ درجنوں مذہبی و سماجی تنظیموں نے یاد سفیران انقلاب کے عنوان سے پرشکوہ پروگرام کا اہتمام کیا۔
ایرانی شہید صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی،ایرانی وزیر خارجہ شہید حسین امیر عبد اللہیان،تبریز کے امام جمعہ شہید آیت اللہ سید آل ہاشم وغیرہ سے مخصوص اس پروگرام کا آغاز قاری بدر الدجی نے سورہ بقرہ کی ان آیات کی تلاوت کے ذریعہ کیا جن میں صبر و شہید و شہادت کا تذکرہ ہے۔
بعدہ ناظم جلسہ مولانا سید حیدر عباس رضوی نے موجودہ حالات کا مختصر سا خاکہ پیش کر جناب وصی کاظمی کو اشعار پیش کرنے کے لئے مائک پر بلایا۔جنہوں نے نہایت دلکش آواز میں شہداء کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا جس سے سینکڑوں کی تعداد میں موجود حاضرین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
اس کے بعد ناظم جلسہ نے پہلے مقرر کے عنوان سے ڈاکٹر سید کلب سبطین نوری کو دعوت سخن دی جنہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے مختصر سی تقریر کے دوران بیان کیا کہ دوسرے مقرر معروف عالم و خطیب مولانا سید محمد حسنین باقری نے کہا صدر رئیسی نے بے لوث خدمات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کی جس کا مظاہرہ انکے جنازے میں ہوا۔ اور بتایا کہ سیاست کا مطلب ملک و قوم کی خدمت، لوگوں کے درمیان الفت و محبت اور مظلوموں کی نصرت و حمایت ہے۔
اس کے بعد تیسرے مقرر معروف صحافی شکیل رضوی نے بیان کیا کہ ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کے لئے کوشاں تھے۔شاید اسی وجہ سے ایرانی حکومت نے اس برس فروری سے ہندوستانی شہریوں کے لئے ایرانی ویزہ لئے بغیر سفر کے سہولت فراہم کی۔تا کہ مغربی ممالک اپنی اس پالیسی میں ناکام ہو سکیں جو ایران کے تئیں نفرتیں پروان چڑھانے والی تھیں۔
فاضل ناظم محترم نے اس کے بعد مولانا اصطفی رضا کو دعوت دی جنہوں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے بت شکن کا نام آیت اللہ ابراہیم رئیسی ہے جنہوں نے اسرائیل کی طاقت کا بت پاش پاش کر دیا۔کبھی کبھی نام کا اثر کردار میں دیکھنے کو ملتا ہے۔حضرت ابراہیم جو منادی توحید تھے انہوں نے پتھر کے بتوں کو بھی توڑا اور باطنی بتوں کو بھی توڑا۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اس کے بعد مولانا اختر عباس جون کو دعوت دی جنہوں نے پر مغز تقریر کے دوران کہا کہ ابراہیم رییسی باطل طاقتوں کو سرنگوں کرنے میں رہبر انقلاب کے بھروسہ مند ساتھی اور مشکل وقت میں عالم اسلام و جھان تشیع کی امید تھے۔
اس کے بعد کے مقرر معروف محقق و صاحب قلم و تجزیہ نگار مولانا سید مشاہد عالم رضوی تھے جنہوں نے کہا کہ آج سفیران انقلاب کی شہادت پر حق اور سچائی کے تمام متوالے سوگوار ہیں۔آقائے رئیسی ایران کے وہ واحد صدر ہیں جنہوں نے تین سال کی مدت میں سیاست کو خدمت،مظلوموں کی حمایت اور عوام کی مشکلات کے حل کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا۔
اس منظم و پر شکوہ پروگرام کے آخری مقرر خطیب قادر کہنہ مشق صحافی جناب مولانا سید محمد جابر جوراسی تھے جنہوں نے بیان کیا کہ ہندوستان اور ایران کی ثقافت میں یکسانیت ہے اس کا ثبوت ہند و ایران کی عزاداری یے۔ہندوستان کے نائب صدر شہید رئیسی کی شہادت پر جب حاضر ہوئے تو انہوں نے سیاہ لباس پہن کر یہ ثابت کیا کہ ہندوستان اور ایران میں ثقافتی یکسانیت ہے۔
مولانا جوراسی نے اپنی گفتگو کے آخر میں نہایت مختصر مصائب پیش کئے جس سے مرد و زن سبھی نے شور گریہ بلند کیا۔
پروگرام کے اختتام پر مولانا سید حیدر عباس رضوی نے ان تمام تنظیموں کی نمائندگی میں علماء کرام اور مومنین و حاضرین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے سفیران انقلاب کی یاد میں ہونے والے پروگرام کو اپنی شرکت سے با رونق بنایا۔پروگرام میں بڑی تعداد میں علماء کرام و سماجی کارکنان کے علاوہ دانشوران قوم موجود رہے۔
اس پروگرام کو عین الحیات ٹرسٹ،ادارہ علم و دانش،حیدری ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی،پرنٹ پوائنٹ،ہدی مشن،الہی گھرانہ،طہ فاؤنڈیشن،تنزیل ایکیڈمی،ولی العصر اکیڈمی،جامعۃ الزہرا،ادارہ اصلاح،المومل کلچرل فاؤنڈیشن،نبا فاؤنڈیشن،کیئر اسلام،بہجۃ الادب،احیوا امرنا ٹرسٹ،عرش ایسوسی ایٹ،غازی چینل،گوہر ایجنسی،ہادی ٹی وی،ولایت ٹی وی،گراف ایجنسی،مہدینز آرگنائزیشن،اودھنامہ وغیرہ کی مشترکہ کاوشوں کے ذریعہ منعقد کیا گیا۔