مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے اختتام پر تہران اور اسلام آباد نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے دونوں پڑوسی اور مسلم ممالک کے تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کی بنیاد پر تجارتی اور اقتصادی تعاون کی مزید توسیع، آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے، انفراسٹرکچر اور توانائی کی ترقی، ای سی او اور شنگھائی تعاون تنظیم سمیت علاقائی تنظیموں کے میکنزم پر اتفاق کیا نیز غزہ میں صیہونی حکومت کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کی ضرورت اور اس علاقے کے لوگوں کی انسانی امداد تک رسائی پر زور دیا۔
اس مشرکہ بیانئے کا مکمل متن درج ذیل ہے:
1- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف کی دعوت پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے 22 سے 24 اپریل 2024 تک پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران ایران کے صدر کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی تھا جس میں ایران کے وزیر خارجہ جناب امیر عبداللہیان اور کابینہ کے دیگر ارکان اور اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔
2- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محترم جناب ابراہیم رئیسی نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے وفود کی سطح پر بات چیت کی۔ ان مذاکرات میں فریقین نے پاکستان اور ایران کے درمیان وسیع تر دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس دورے کے دوران مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔
3- فریقین نے برادرانہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے باقاعدہ تبادلے کے ذریعے باہمی روابط کو مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔
4- فریقین نے دونوں پڑوسی اور مسلم ممالک کے تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات پر زور دیتے ہوئے علمی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ اور تاریخی مذہبی مقامات کی سیاحت کے فروغ کے ذریعے ان روابط کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
5- دونوں ممال کے سربراہان نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ سرحد "امن اور دوستی کی سرحد" ہونی چاہیے، مزید خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کے درمیان باقاعدہ تعاون اور تبادلہ خیال کی اہمیت پر زور دیا۔
6- فریقین نے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے اور مشترکہ ترقی پر مبنی اقتصادی منصوبوں کے ذریعے اپنی مشترکہ سرحد کو "امن کی سرحد" سے "خوشحالی کی سرحد" میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ سرحدی منڈیوں، آزاد اقتصادی زونز اور نئی سرحدیں کھولنے پر زور دیا۔
انہوں نے توانائی کے شعبے بشمول پاور ٹرانسمیشن لائنوں اور آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے میں تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے آئندہ پانچ سالوں میں دوطرفہ تجارت کو 10 بلین ڈالر تک بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
7- دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لئے نے آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کو جلد حتمی شکل دینے اور اقتصادی اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے وفود کے باقاعدہ تبادلوں کی سہولت فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ "
8. دونوں فریقوں کے درمیان اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تبادلے کے تجارتی میکانزم خاص طور پر سرحدی منڈیوں کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔
9- پاکستان اور ایران نے خطے کے ممالک کے درمیان رابطے کو فروغ دینے کے لیے اپنی اپنی جغرافیائی پوزیشنوں کو استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
فریقین نے TIR کنونشن کے تحت اشیاء کی باقاعدہ نقل و حمل میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ TIR کنونشن کو مکمل طور پر فعال کرنے سے ای سی او کے وسیع تر خطے میں علاقائی انضمام اور رابطے میں بھی اضافہ ہوگا۔
10- بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) اور اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن کے طور پر، دونوں ممالک نے رابطے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک نے گوادر اور چابہار کی بندرگاہوں کے درمیان باہمی فائدہ مند اور پائیدار تعلقات کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا۔
11- فریقین نے دہشت گردی اور اس کی تمام شکلوں کی مذمت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ دہشت گردی خطے کے امن و استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہے اور خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے اور اس خطرے سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے موجودہ دو طرفہ ادارہ جاتی میکانزم کو استعمال کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
فریقین نے سرحدی علاقوں میں سیکورٹی کے ماحول کو بہتر بنانے میں اقتصادی اور تجارتی مواقع بڑھانے کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیا۔
12- دونوں ملکوں کے اعلی حکام نے علاقائی اور عالمی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ چیلنجوں کے لیے باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل کی اہمیت پر زور دیا۔
13- تہران اور اسلام آباد نے مسئلہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی مرضی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پرامن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
14- فریقین نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی حکومت کی وحشیانہ جارحیتوں اور غزہ کی غیر انسانی ناکہ بندی کی شدید اور کھلے الفاظ میں مذمت کی اور فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محصور لوگوں تک انسانی امداد کی بلا تعطل رسائی، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور اسرائیلی حکومت کو اس جرائم پع جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا۔ نیز فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق منصفانہ، جامع اور پائیدار حل کے لیے اپنی حمایت کا بھی اعلان کیا۔
15- فریقین نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے تمام میکانزم میں دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات اور تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں استحکام برقرار رکھنے اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے SCO-افغانستان رابطہ گروپ کی سرگرمیوں کو جلد از جلد شروع کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
16- اقتصادی ترقی کے لیے علاقائی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، دونوں ممالک نے تسلیم کیا کہ ای سی او کے خطے میں رکن ممالک کی معیشت کو ترقی دینے کی کافی صلاحیت موجود ہے لہذا ایس سی او اور ای سی او کے درمیان تعاون پورے خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
17- فریقین نے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خطرات سے پاک ایک پرامن، متحد، آزاد ملک کے طور پر افغانستان کی ترقی کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی خطے اور دنیا کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور ملک کے بنیادی فیصلوں میں افغانستان کے تمام طبقات کی زیادہ سے زیادہ شرکت امن و استحکام کو مضبوط کرنے کا باعث بنے گی۔
18- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب رئیسی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کی موجودہ سطح پر اطمینان کا اظہار کیا اور باہمی مفاد کے شعبوں میں کثیر الجہتی تعاون کو مضبوط بنانے کے اپنے عزم پر زور دیا۔
19- پاکستان کی سینیٹ کے اسپیکر یوسف رضا گیلانی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب رئیسی کا استقبال کیا۔ اپنی ملاقاتوں میں فریقین نے دونوں ممالک کی پارلیمانوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
20- فریقین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی اور ان کی حوالگی کے لیے 1960 میں منظور ہونے والے ایران اور پاکستان کے درمیان حوالگی کے معاہدے اور 2016 میں منظور کیے گئے دونوں ممالک کے درمیان سزا یافتہ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کی بنیاد پر اقدامات کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
21- ایران اور پاکستان کے سربراہان نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کی جو کہ شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور اس کے استحکام اور سلامتی کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور یہ حملہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی اور سفارتی تعلقات کے 1961 کے ویانا کنونشن کے تحت غیر قانونی تھا۔
فریقین نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اسرائیلی افواج کی غیر ذمہ دارانہ کارروائی پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں کشیدگی میں ایک بڑا اضافہ ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا کہ وہ خطے میں اسرائیلی رجیم کی مہم جوئی اور اس کے ہمسایہ ممالک پر حملوں جیسے غیر قانونی اقدامات کو روکے۔
22- فریقین نے بعض ممالک میں اسلامو فوبیا، قرآن پاک اور مقدسات کی بے حرمتی کے واقعات میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ آزادی اظہار کے بہانے مذہبی منافرت کی وکالت جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد کو اکسانے کے مترادف ہو، کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 78.264 کی"اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات" کی منظوری کا خیرمقدم کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں "اسلامو فوبیا کے خلاف اقدامات" کی قرارداد کی منظوری کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اقدام کو سراہا۔
23- دونوں ممالک کے اعلی سطحی اجلاس میں سماجی، قانونی اور حکومتی نظام کے تنوع کے بین الاقوامی احترام پر زور دیا گیا اور تمام انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ہمہ گیر، غیر جانبدارانہ اور تعمیری بین الاقوامی مکالمے اور تعاون کے اصولوں پر بھی زور دیا گیا اور کسی بھی طرح سے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سخت مخالفت کا اعلان کیا۔
24- فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ ہر قوم کی اپنی تاریخ، ثقافت اور منفرد قومی خصوصیات، اور متنوع سماجی نظام اور قتصادی ترقی کی سطحیں ہیں، اور انسانی حقوق کا تحفظ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت ذمہ داریوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک نے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے مشاورت اور تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
25- ایرانی صدر اور پاکستانی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ، اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او)، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سمیت کثیر الجہتی فورمز میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے تمام پہلوؤں کا خیرمقدم کرتے ہوئے آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن، ایشین کوآپریشن ڈائیلاگ (ACD) اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں آزاد تجارتی مذاکرات شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
26- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ رئیسی نے لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کیا۔ انہوں نے لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی جب کہ کراچی میں مزار قائد پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
27- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے وزیر اعظم پاکستان کی گرمجوشی اور مہمان نوازی کو سراہا۔
28- ایرانی صدر نے اپنے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کو ایران کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دی۔