مہر خبررساں ایجسی، سیاسی ڈیسک: سابق سیکرٹری خارجہ اور ماہر امور خارجہ شمشاد احمد خان نے مہر نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیش العدل امریکی سپانسرڈ گروپ ہے جس نے ایران کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
مہر نیوز: آپ کے خیال میں پاکستان ایران تعلقات کس نوعیت کے ہیں؟
پاکستان اور ایران کے گہرے تعلقات ہیں یہ کوئی عام برادرانہ تعلقات نہیں ہیں۔ دونو ں ممالک کے درمین کوئی تنازعہ نہیں صرف اسٹریجک معاملات ہیں ا سکی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ دونوں ممالک کی جیو پولیٹکل لوکیشن بہت ہی اہمیت کی حامل ہے دونوں ممالک خطے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ایران نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے جب بھی مشکل وقت آیا ایران نے ہمارا ساتھ دیا 1965کی جنگ میں ایران نے ہمارا ساتھ دیا 2002 میں بھارتی افواج بارڈر پر آگئی تھیں اس وقت ایران نے ہمارا ساتھ دیا۔ایسے ہی ہم بھی ایران کی مدد کرتے ہیں۔یہ جو رشتہ ہے بہت مضبوط ہے۔
مہر نیوز: حالیہ کشیدگی میں کوئی تیسری قوت ملوث ہے؟
اس وقت پاکستان میں نگران حکومت ہے ایران نے حملہ کیا تو سوال یہ ہے کہ حملہ کیوں کیا گیا ہوگا؟میں نے ایران میں آٹھ سال گزارے اور40سال پاکستان کیلئے سفارتی خدمات انجام دی ہیں میرے سفارتی کیرئیرکاآغاز ایران سے شروع ہوا تھا،میں 1965میں ایران گیا تھا،شاہ ایران اور صدر کی میٹنگز کے منٹز نوٹ کرتا تھا دونوں بھائیوں کی میٹنگ میں شکایتیں ہوا کرتی تھیں۔حالیہ صورتحال میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے پریشر سے ایسے کام کروائے جارہے ہیں جو وہ خودخطے میں نہیں کرسکتے ہمیں مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنا چاہئے تھا۔
مہر نیوز: حالیہ کشیدگی کا حل کیا ہوسکتا ہے؟
ایران میں جو دہشت گرد بد امنی کرتے ہیں انہیں بیرونی قوتوں کی حمایت حاصل ہے وہاں کونسے انتہا پسند گروہ متحرک ہیں یہ دونوں ممالک کی عسکری قیادت کے علم میں ہوتا ہے،جیش العدل (جیش الظلم) امریکی سپانسرڈ گروپ ہے جس نے ایران کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔امریکہ،ایران کو فلسطین اور اسرائیل تنازعہ میں بہانہ بناکر نشانہ بنانا چاہتا ہے امریکہ کبھی بھی ایران پر براہ راست حملہ نہیں کرے گا لیکن وہ جیش العدل (جیش الظلم) جیسے پھٹووں کو استعمال کرتا ہے تاکہ ایران کو پریشر میں لایا جاسکے اگر ایران نے حملہ کیا تھا سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی،ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جب طالبان خطے کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو تب بھی ایسے واقعات روز ہوتے تھے حتی کہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایرانی نیشنل گارڈ کے اہلکار ماردئیے (شہید) گئے تھے اس کا الزام پاکستان پر لگایا تھا ہم نے اس پہ ایران سے مزاکرات کئے تھے اور معاملہ کو سفارتی سطح پر حل کیا تھا۔