مہر خبررساں ایجنسی_سیاسی ڈیسک: غزہ پر صہیونی حکومت کی جارحیت کے 49 دن پورے ہورہے ہیں۔ اس دوران صہیونی حکومت کی وحشیانہ بمباری اور جارحانہ حملوں کی وجہ سے 14 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ اگرچہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام صہیونی حکومت کی نظر کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن تعجب مغربی ممالک کے رویے پر ہوتا ہے جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں۔
غزہ پر جارحیت کے لئے جددید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود صہیونی فورسز کو انتہائی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی وسیع حمایت حاصل ہونے کے باوجود اسرائیل ان نقصانات سے نہیں بچ پایا ہے۔ مبصرین کے مطابق اسرائیل اپنے نقصانات کا اعداد و شمار دینے میں حقائق چھپارہا ہے۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔
مہر نیوز کے نامہ نگار نے فلسطین کے حوالے سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار اور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامی جامعہ کراچی ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
مہر نیوز؛ طوفان الاقصی نے عرب دنیا اور عالمی سطح پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں؟
ڈاکٹر جواد: اسرائیل جو کئی دہائیوں سے فلسطین پر ظلم ڈھا رہا تھا اور طاقت کے نشے میں مست ہو کر اپنی جارحیت کو تسلسُل کے ساتھ انجام دے رہا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ کوئی طاقت اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، فلسطین کے مجاہدین نے طوفان اقصٰی کے ذریعے اسے ایسا بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا جس کی مثال اس غیر قانونی اور غاصب ریاست کے قیام سے اب تک کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔
کیونکہ اس سے قبل بیک وقت اس کے نہ تو سینکڑوں افراد مارے گئے تھے اور نہ سینکڑوں لوگ گرفتار ہوئے تھے لیکن فلسطینی مجاہدین نے طوفان اقصی میں یہ کام کر دکھایا۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عرب دنیا کی حالت نہایت شرمناک ہے۔ عرب ممالک ایک ایک کر کے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرتے جا رہے ہیں۔ زیادہ افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ سعودی عرب جو خود کو مسلم ممالک کا ڈان سمجھتا ہے وہ بھی رسمی طور پر سفارتی تعلقات کی استواری کے لیے مذاکرات کر رہا تھا اور اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات استوار کرنے والا تھا اب ظاہر ہے سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات کی استواری کے بعد باقی مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند ہو جاتے لیکن طوفان اقصی نے عربوں کی ان خیانت کارانہ کوششوں میں خلل ڈالا ہے۔
طوفان اقصی کے بلا شبہ عالمی سطح پر بھی اثرات ظاہر ہوں گے بلکہ ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ طوفان اقصی کے بعد اسرائیل نے جس طرح بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ پر بمباری کی ہے اور خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد کو شہید کیا ہے اس کے خلاف عالمی سطح پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک سمیت پوری دنیا میں لوگ اسرائیلی جارحیت اور ظلم و بربریت کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں اور نکل رہے ہیں۔ اگر آپ عالمی خبروں کو دیکھیں تو گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران مسلم ممالک کے علاوہ ہفتہ اور اتوار کو اکثر مغربی ممالک کے عوام بھی فلسطین کے جھنڈے اٹھا کر لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی مظلوموں کی حمایت میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں کے اوپر اسرائیلی جارحیت کو رکوانے کے لیے عملی قدم اٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ عالمی سطح پر صہیونیوں کے بھرپور پروپیگنڈے کے باوجود رائے عامہ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہموار ہو رہی ہے۔ یعنی لوگ سمجھ چکے ہیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون! حالانکہ صہیونی لابی مغربی ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر میڈیا وار کے ذریعے مسلسل کوشش کر رہی ہے کہ فلسطینیوں کو ظالم اور اسرائیل کو مظلوم ظاہر کرایا جائے لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں ناکام ہیں کیونکہ عالمی سطح پر لوگ جان چکے ہیں کہ اسرائیل ظالم ہے اور فلسطین مظلوم۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔
مسئلہ فلسطین جسے عربوں نے اور دنیا نے بھلا دیا تھا طوفان اقصی نے اس مسئلے کو ایک نہایت اہم حل طلب مسئلے کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ فٹ بال، کرکٹ اور دیگر کھیل کے عالمی مقابلوں کے دوران بھی لوگ فلسطین کا پرچم ہاتھوں میں تھام کر اسرائیل کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ یہ درحقیقت اسرائیل اور اسرائیل نواز حکومتوں کی رسوائی ہے۔ تو طوفان اقصی کے اثرات نہ صرف عرب دنیا بلکہ عالمی سطح پر مرتب ہو رہے ہیں امید ہے کہ یہ اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
مہر نیوز؛ طوفان الاقصی کے فورا بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا جبکہ اکثر مسلمان حکومتیں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ زبانی ہمدردی کے علاوہ کوئی عملی اقدام کرنے سے گریز کررہی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
یہ مسلمان ممالک کے لیے واقعی نہایت شرمناک اور افسوسناک صورتحال ہے۔ اسلام ہمیں ظالم کی مخالفت اور مظلومین کی حمایت و نصرت کا حکم دیتا ہے لیکن اس وقت مسلم حکمران اسلام کے اس حکم پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کے اندر غیرت و حمیت ناپید ہو چکی ہے اگر ذرا سی غیرت ہوتی تو فلسطین کے معصوم بچوں اور خواتین کی لاشوں کو دیکھ کر ان کی مدد کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتے۔ اصل میں مسلم حکمران اس وقت اقتدار کے نشے میں مست ہیں اور عیاشیوں میں مگن ہیں اور اپنے مفادات کی ڈیل کے سبب عالمی استعمار کے شکنجے میں گرفتار ہیں وہ اپنے چند روزہ اقتدار کو بچانے کے لیے استعماری طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ پالیسیوں کے خلاف ذرا بھی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپی ممالک کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی مدد بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ کے صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا، اس کے وزیر خارجہ نے کم از کم دو مرتبہ اسرائیل کا دورہ کیا اور ہر طرح سے اسرائیل کی حمایت اور مدد کرنے کا کھل کر
اعلان کیا۔
برطانیہ کے وزیر اعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا اور کئی دیگر یورپی ممالک کے سربراہوں نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ظلم و بربریت کے باوجود کھل کر اس کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک کے حکمران بھی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی کھل کر حمایت اور مدد کرنے کا اعلان کرتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
حالیہ او آئی سی کے اجلاس میں بھی کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کا فیصلہ نہیں اٹھایا گیا بلکہ خبروں کے مطابق اسرائیل کو تیل اور دیگر تجارتی اشیاء کی سپلائی روکنے کے ایران کے صدر رئیسی کی جانب سے پیش کیے جائے والے قابلِ عمل مطالبے کی بھی مخالفت کی گئی۔
مسلم حکمرانوں کی اس سستی اور بزدلی کی سب سے بڑی وجہ اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک کی رائے کے برعکس کوئی اقدام اٹھایا جائے تو وہ اُن کا تختہ ہی الٹ پلٹ کر رکھ دیں گے اور حکومت اور اقتدار کسی اور کو مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہتے فلسطینیوں کی کوئی عملی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔
مہر نیوز؛ غزہ کی جنگ کے تناظر میں بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کیا رخ اختیار کرسکتی ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ طوفان اقصی نے ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ عرب ممالک جو عربی عصبیت پر بڑا زور دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ فلسطین کے عربوں کی عملی حمایت و نصرت کرنے سے گریزاں ہیں بظاہر اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ فلسطینی مجاہدین کے حالیہ اقدام کو اپنے مفادات سے متصادم جانتے ہیں اس لیے فلسطینی مجاہدین کی مدد نہیں کر رہے حالانکہ اسرائیل جیسے ناسور کے خاتمے کا سب سے بڑا فائدہ انہی عربوں کو ہو گا لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے اس لیے اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا ہی بہتر ہے چاہے اس سے عالم اسلام کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ تو حالیہ جنگ کے بعد اب عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی استواری میں تاخیر ہو گی لیکن میرے خیال میں یہ کوششیں مکمل ختم نہیں ہوں گی۔ جنگ بندی کے بعد عرب ممالک ذرا تاخیر سے ہی سہی تعلقات کی استواری کے مرحلے کو دوبارہ آگے بڑھائیں گے اور اپنے حکومتی مفادات کو (عوامی مفادات نہیں) حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں یہ بات عربوں کی غیرت و حمیت کے فقدان کو دیکھ کر عرض کر رہا ہوں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اس سے قبل فلسطین کے علاوہ بعض عرب ممالک کے خلاف بھی اسرائیل جنگ لڑ چکا ہے لیکن اس کے باوجود بعد میں اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ آگے بڑھانے میں انہوں نے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی تو اس دفعہ بھی ایسا ہی ہونے کا امکان ہے کہ جیسے ہی جنگ رک جائے گی تو تعلقات قائم کرنے کی کوششیں بھی آگے بڑھیں گی!
مہر نیوز؛ طوفان الاقصی کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ حماس کو تباہ کردیں گے لیکن اب تک اس میں ناکام ہیں اس کی کیا بنیادی وجہ ہے؟
یہ اسرائیلی وزیراعظم کی خام خیالی تھی اس نے 1967 میں عربوں کی حکومت کو دی گئی شکست کو ذہن میں رکھ کر شاید ایسا بیان دیا تھا کہ جب کئی عرب ممالک ہماری طاقت کے سامنے چند دنوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکے تو حماس اور اس جیسے چند چھوٹے گروہوں کی کیا حیثیت ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس نے ان مجاہدین کو عرب کے اقتدار پرست حکمرانوں کے ساتھ قیاس کرنے کی غلطی کی ہے۔ عرب حکمران اپنے مفادات اور ہوس کی سیاست میں جھگڑے ہوئے تھے اور ہیں جس کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی تھی۔ لیکن اقتدار اور ہوس کی سیاست اور خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر فی سبیل اللہ جنگ کی جائے تو ایسے مجاہدین کو شکست دینا آسان نہیں ہوتا۔ اس سے قبل 2006 میں بھی حزب اللہ نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا اس وقت بھی اسرائیل کے حکمرانوں نے اور خاص طور پر امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈیلا رائس نے کہا تھا کہ اسرائیل دو سے تین دنوں میں حزب اللہ کا خاتمہ کرے گا اور اپنی سرحدوں کو فرات تک لے جائے گا لیکن اس جنگ میں حزب اللہ کے مجاہدین نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوایا تھا اور قیدیوں کے حوالے سے اپنے مطالبات کے سامنے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔
اب بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا کہ اسرائیل نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے کے باوجود انہیں شکست نہیں دے سکے گا بلکہ اس وقت جو حماس کے ساتھ نہیں ہیں وہ بھی اب اسرائیلی جارحیت کے سبب حماس کا ساتھ دیں گے اور مزاحمت کاروں میں اب مزید اضافہ ہو گا۔
مہر نیوز؛ طوفان الاقصی کے بعد مقاومتی بلاک اور اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
طوفان اقصی نے ایک طرف حماس کی عسکری طاقت کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی طاقت کے بھرم کا پول کھول دیا ہے اور اس کے ناقابل شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ اسرائیل جو اپنی طاقت اور جاسوسی نیٹ ورک پر ہمیشہ نازاں رہتا تھا اور پروپیگنڈے کے ذریعے دینا کے سامنے ایسے ظاہر کرتا تھا کہ ان کے پاس مضبوط فوج اور مضبوط انٹیلیجنس ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ مجاہدین کے اچانک ہزاروں کی تعداد میں فائر کیے جانے والے میزائلوں کی تیاری کا انہیں کانوں کان خبر تک نہ ہو سکی اور یوں اس کو گزشتہ 75 سالہ تاریخ میں اب تک کے شدید ترین نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ظاہر ہے اتنے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملوں کی تیاری کافی عرصے سے جاری رہی ہو گی لیکن اسرائیل خبردار نہ ہو سکا اور یوں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکہ کی مدد سے نصب شدہ میزائل شکن نظام آئرن ڈوم بھی اتنی بڑی تعداد میں فائر کیے گئے بہت سے میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔
لہذا اس ساری صورتحال کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ طوفان اقصی کے بعد مزاحمتی بلاک کا حوصلہ مزید بڑھا ہے، انہیں اپنی طاقت اور قوت کا ادراک ہوا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے خوف و وحشت میں اضافہ ہوا ہے۔
میرے خیال میں طوفان اقصی کے بعد غزہ کے قریب اسرائیلی نو آباد علاقوں سے فرار کردہ اسرائیلی اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ وہ شدید خوف اور وحشت کا شکار ہیں۔ پورے اسرائیل میں ان کے اپنے لوگ وزیراعظم نیٹن یاہو کی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور اس سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں مزید بڑھے گا کیونکہ اب اسرائیل ناامن ہو چکا ہے انہیں یہ خوف لاحق ہو چکا ہے کہ کسی بھی وقت اچانک دوبارہ میزائلوں کی بارش ہو سکتی ہے۔ لہذا جب خوف و وحشت کا سلسلہ جاری رہے گا تو قوی امید ہے کہ جو صہیونی دیگر ممالک سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے وہ اب آہستہ آہستہ اپنے آبائی ممالک کی جانب واپس لوٹ جائیں گے اور یوں اگلے چند سالوں کے دوران اسرائیل تباہی سے دوچار ہو جائے گا اور ولی امر مسلمین حضرت آیت آللہ العظمی خامنہ ای کے بقول اگلے پچیس سالوں تک اسرائیل کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اور مشرق وسطی صہیونی دہشت گردوں کی دہشت گردی سے محفوظ ہو جائے گی۔ اور فلسطینی مسلمان اپنے وطن میں سکون سے رہ سکیں گے۔