مہر نیوز کے رپورٹر کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے غزہ کے بحران کے حوالے سے برکس ورچوئل سربراہی اجلاس میں غزہ کی صورت حال کو مغربی بین الاقوامی نظام کی ناانصافی کی واضح علامت قرار دیتے ہوئے صیہونی حکومت کی غاصبانہ کارروائیوں کی مذمت کی جو کہ ہر قسم کے کیمیائی ہتھیاروں اور ایٹم بموں سے لیس ہے جو کہ علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے تمام برکس ممبران اور دنیا کی تمام آزاد حکومتوں سے کہا کہ وہ انسانیت کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے اپنی تمام سیاسی اور اقتصادی طاقت صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کریں۔
غزہ بحران کے حوالے سے برکس ورچوئل سمٹ میں صدر کی تقریر کا مکمل متن حسب ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی سیدنا و نبینا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین
محترم جناب صدر؛
معزز برکس ممبران؛
سب سے پہلے، میں جمہوریہ جنوبی افریقہ کے معزز صدر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس ورچوئل میٹنگ کو منظم کرنے اور ممالک کے درمیان رابطہ قائم کرنے کی زحمت اٹھائی۔
آج ہم اس وقت جمع ہوئے ہیں جب دنیا غزہ میں فلسطینی قوم کے خلاف بے مثال تشدد اور جرائم کا براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے۔
ان دنوں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے مغربی بین الاقوامی نظام کی ناانصافی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ غزہ کا مسئلہ انسانیت اور انصاف کا مسئلہ ہے۔ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے نہ صرف انسانیت، اخلاقیات اور حقوق کو پامال کیا ہے بلکہ وہ درست معلومات کو چھپانے اور غلط معلومات پھیلانے کے ساتھ عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
7 اکتوبر کو جنگ کا آغاز قرار دینا دوسرے درجے پر مسئلے کی حقیقت اور بیانیہ کو مسخ کرنا ہے جب کہ ناجائز قبضے، دہشت گردی اور جارحیت کی 75 سالہ تاریخ کے علاوہ گذشتہ سال مغربی کنارے میں بھی متعدد تنازعات رونما ہوئے۔
اس ایک سال میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے تقریباً 200شہید دیے ہیں۔ کیا وہاں کسی کے پاس میزائل تھا؟ حکومت کا مقصد مغربی کنارے کو خالی کرنا اور اس کی آبادی کو اردن اور مصر منتقل کرنا اور اس پر قبضہ کرنا تھا۔
درحقیقت حماس نے بیت المقدس اور مغربی کنارے کے دفاع اور مسجد الاقصی کی بے حرمتی اور صیہونی بستیوں کی توسیع کے خلاف آپریشن کیا۔
آئیے یہ نہ بھولیں کہ جنگ کی بنیادیں صیہونی قبضے کے تسلسل میں پنہاں ہیں۔ اسرائیل کے پروپیگنڈے کے برعکس، فلسطینیوں کا آپریشن وحشیانہ کارروائی نہیں، بلکہ صیہونی قبضے کے خلاف دفاع کے بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق بالکل جائز دفاع ہے۔
غاصب رجیم کے طور پر صیہونی حکومت نے امریکہ کی ہری جھنڈی اور مکمل حمایت سے غزہ کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے اور جنگی جرائم کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس حکومت کے سیاسی اور فوجی رہنما کھل کر فلسطینیوں کی نسل کشی پر بات کرتے ہیں۔
جعلی اسرائیلی حکومت کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ "غزہ میں کوئی بے گناہ شہری نہیں ہیں"؛ اس رجیم کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ "بچے بھی جائز فوجی اہداف ہیں"۔ صیہونی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ "حملوں کا ہدف زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانا ہے کمی لانا نہیں"؛
صیہونی وزیر جنگ غزہ کی عوام کو "انسانیت نما جانور" کہتے ہیں اور اس جعلی حکومت کے ثقافتی ورثے کے وزیر کا کہنا ہے کہ "غزہ پر ایٹمی حملہ وہاں کے لوگوں کو تباہ کرنے کا صحیح آپشن ہے۔
ایسی حکومت جو ہر قسم کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں اور ایٹم بموں سے لیس ہو، یقیناً علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
محترم سربراہان مملکت
اس سے بھی بدتر فلسطینیوں کی نسل کشی اور بچوں کے قتل عام کے لیے امریکہ اور مغرب کی ہر طرح کی حمایت ہے اور اب تک 5500 مظلوم بچوں سمیت غزہ کے 14,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور 41,000 رہائشی یونٹس تباہ ہو چکے ہیں۔
غزہ کے 60 فیصد علاقے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ کتنا ظلم ہے کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس مغربی طاقتوں کے طور پر روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل کو ہر قسم کے ہتھیار اور بم بھیجتے ہیں اور ساتھ ہی جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کی مدد کے تمام راستے بند کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مفلوج کر دیا ہے۔
آج مغرب رسوا ہو چکا ہے اور مغربی اقدار اور نعروں کا جھوٹ آشکار ہو چکا ہے۔ غزہ مغرب کی اخلاقی پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج غزہ انسانیت اور انصاف پر مبنی بین الاقوامی نظام قائم کرنے کے لیے آزاد ریاستوں کی مرضی کا بہت بڑا امتحان ہے۔
آج عالمی طاقتوں کے لیے ان اقدار کے لیے کھڑے ہونے کا دن ہے جنہوں نے ہمیں متحد کیا ہے۔ آج برکس کے لیے کردار ادا کرنے کا دن ہے۔
محترم سربراہان مملکت!
بلاشبہ جنگی مشنری کا ایندھن اور اس ظلم کی ہمہ گیر حمایت امریکہ نے فراہم کی ہے۔ امریکہ نے تمام بین الاقوامی اداروں کو غیر موئثر اور مفلوج بنا دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران برکس کے تمام ممبران اور دنیا کی تمام آزاد حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانیت کے تحفظ اور انصاف کے قیام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور دنیا میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کریں اور اپنی تمام سیاسی اور اقتصادی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں پر دباؤ ڈالیں۔
برکس ممالک کے معزز سربراہان
امریکہ اور غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کرنے والے مغربی ممالک کا دنیا کے عوام میں اب کوئی اعتبار نہیں رہا۔
آج برکس کے رکن ممالک پر یہ تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ سیاسی مفادات کے لیے انسانی اقدار کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اس بنا پر میں ان تجاویز پر زور دینا چاہوں گا تاکہ جرائم کو روکا جا سکے اور غزہ کے لوگوں کی مدد کی جا سکے۔
1- امن اور سلامتی کے قیام کے اپنے مشن کو نافذ کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نااہلی پر غور کرتے ہوئے امریکہ کی جنگ بندی کے میں رکاوٹ ڈالنے کو سامنے رکھ کر برکس کے رکن ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ "یونین فار پیس" میکانزم کے فریم ورک میں صیہونی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کریں جس کا مقصد غزہ کے عوام کے خلاف جرائم کو روکنا ہے۔
2- ہسپتالوں اور طبی مراکز، مذہبی مقامات پر صیہونی حکومت کے مسلسل حملے، خواتین اور بچوں، ڈاکٹروں، نرسوں کا قتل عام کھلی دہشت گردی ہے لہذا غاصب رجیم اور وحشی فوج کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔
3- اسلامی جمہوریہ ایران بعض حکومتوں کے غزہ میں غاصب اسرائیل کے جرائم کو بین الاقوامی فوجداری عدالت تک پہنچانے کے اقدامات کی حمایت کرتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسرائیل کے علاوہ امریکہ کی نسل کشی، بچوں کے قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے سلسلے میں بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور فوری سزا دی جائے۔
4- غزہ کی ناکہ بندی کو توڑنے اور غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کے لیے مستقل اور محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے برکس کے اراکین کی اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں رفح کراسنگ کو مستقل طور پر دوبارہ کھولنے پر سنجیدگی سے زور دیا جائے۔
5- غزہ میں کئی ہزار ٹن ہتھیاروں، بم دھماکوں، خاص طور پر سفید فاسفورس جیسے ممنوعہ ہتھیاروں کے جرائم کو دیکھتے ہوئے برکس کے رکن ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس جرم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی بین الاقوامی مشن قائم کریں اور اپنی رپورٹ شائع کریں تاکہ مجرموں اور اس حکومت کے ذمہ داروں کو سزا دی جا سکے۔
6- جعلی اسرائیلی حکومت کی نسل پرستانہ نوعیت اور مسلسل جرائم کو دیکھتے ہوئے دنیا کیآزاد اقوام تمام حکومتوں بالخصوص برکس کے رکن ممالک سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی، اقتصادی اور فوجی تعلقات کے مکمل خاتمے کو فوری طور پر ایجنڈے میں شامل کریں۔
جعلی اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے، خاص طور پر عسکری اور اقتصادی شعبوں میں تعاون در اصل اس رجیم کے عورتوں اور بچوں کے جرائم اور قتل کو جاری رکھنے میں مدد کرنے کے مترادف ہے جس کی تمام اقوام کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے۔
7- فلسطینی عوام کے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کرنے اور مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے ان کی جدوجہد کو تمام حکومتوں اور آزاد اقوام کی حمایت حاصل ہے۔ اس حق کے لیے برکس کی بھرپور حمایت ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے اپنا انسانی اور اخلاقی فرض پورا کیا اور فلسطین کے دشمن انسانی ضمیر اور تاریخ کے سامنے رسوا ہوں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آخری حل جو مغربی ایشیا اور دنیا میں پائیدار امن و استحکام کا باعث بنے گا وہ ہے ’’ہر فلسطینی کے لیے ایک ووٹ کا حق‘‘ کے جمہوری اصول پر مبنی ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد واحد فلسطینی ریاست کا قیام۔
امن کے لیے پچھلے ناکام منصوبوں کی راہ پر گامزن رہنے کا نتیجہ صرف جنگ اور عدم تحفظ کی تکرار کی صورت میں نکلے گا۔
امریکہ اور صیہونی حکومت کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ وہ اقوام کی مرضی کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے اور ناجائز قبضے اور نسل کشی کو نئے بین الاقوامی منصفانہ نظام میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
آخر میں، میں ایک بار پھر جمہوریہ جنوبی افریقہ کے معزز صدر کا اس اجلاس کے انعقاد پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اور مجھے امید ہے کہ یہ اجلاس مظلوم اور مقتدر غزہ پر حملوں کو فوری طور پر بند کرنے، انسانی امداد کی بحالی اور ناکہ بندی کا مکمل خاتمہ اور جبری نقل مکانی کے خلاف جنگ اور اس خطے میں تعمیر نو کے عمل کے آغاز کے سلسلے میں سنجیدہ اثرات مرتب کرے گا۔
بہت بہت شکریہ
والسلام علیکم و رحمه الله