مہر خبررساں ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے آج صبح مرقد امام خمینی (رہ) میں منعقدہ تہران کے ائمہ مساجد اور بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طاغوت (شاہی) کے دور میں دسیوں ہزار امریکی فوجی مشیر ہمارے ملک تھے اور انہوں نے ایران کو امریکہ کی ایک ذیلی ریاست یا کالونی بنا دیا تھا حتی کہ عرب اسرائیل جنگ میں بھی انہوں نے ایران کو صیہونی حکومت پر تیل کی پابندیاں لگانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
انہوں نے مزید کہا ہے شاہ ایران نے امریکہ کے حکم سے بعض عرب ممالک کی پابندیوں کے خلاف تیل کے نقصان کی تلافی اور اسے برآمد کرنے کا بیڑا اٹھایا اور سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا جب کہ بادشاہ کی حیثیت امریکہ کی سیاسی بساط کے ایک مہرے کے سوا کچھ نہیں تھی۔
جنرل سلامی نے کہا کہ دین معدوم ہو رہا تھا، شراب خانوں اور ساحلوں پر بے ہودہ گی نے رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ کے معصوم چہرے کو مغربی فحاشی کے اندھیروں میں تبدیل دیا تھا اور اس ذلت آمیز تیرگی کے دور میں اس وقت کے امریکی صدر نکسن تھے جس نے ایران اور سعودی عرب کو امریکہ کی علاقائی پالیسیوں کے دو ستون(مہرے) قرار دیتے ہوئے تمام سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت کی تقسیم میں ایران سعودی عرب کے ساتھ مل کر امریکہ اور برطانیہ کے علاقائی مفادات کا چوکیدار بتایا تھا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ، برطانیہ اور صیہونیوں کو معلوم تھا کہ عالم اسلام ایک ایسا خطہ ہے جس کے پاس دنیا کے تیل اور گیس کے 50 فیصد ذخائر ہیں اور یہ دنیا کی اقتصادی لحاظ سے پرکشش مارکیٹوں میں سے ایک ہے اور اس کا ایک منفرد جغرافیائی محل وقوع ہے۔ اس لیے جو کوئی دنیا پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے اسے اسلامی دنیا، مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس پر ضرور غلبہ حاصل کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے مسلمانوں کی سیاسی تقدیر امریکہ اور برطانیہ کے منحوس ہاتھوں میں رہی اور یہ افسوسناک تاریخی ذلت مسل۔ان کے دامن گیر ہوئی۔
جنرل سلامی نے میں طاغوت (شاہ) کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ابھی بھی وہ لوگ موجود ہیں جو اس تاریک دور کو اس سرزمین کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تہذیب کا خاصہ بنانا چاہتے ہیں اور دشمن کے حواری اب بھی موجود ہیں لیکن تاریخ واضح ہے اور سب کچھ آشکار ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور صیہونیت ایک تلخ حقیقت کے تین پہلو اور ایک سازش اور صریح بدنیتی کے لازم و ملزوم حصے ہیں۔ یہ منحوس ٹرائیکا تین الگ الگ جغرافیوں میں باہم مربوط پالیسیوں کے ساتھ کام کرتی ہے۔
سردار سلامی نے کہا کہ سو سال پہلے سے لے کر طلوع انقلاب تک ملت ایران استعماری یلغار، براہ راست یورش، کھلی مداخلتوں اور قومی طاقت اور خود مختاری سے محروم رہی ہے۔ جب سے تیل کی دریافت ہوئی اور دنیا کے سیاسی جغرافیے میں اسلامی دنیا کی جغرافیائی پوزیشن کو زبردست اہمیت حاصل ہونے لگی تب امریکہ اور برطانیہ نے اسلامی سرزمین کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا اور اقوام کے مادی اور روحانی تشخص کو لوٹ لیا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف نے کہا کہ کل اس سرزمین کے طلباء کے ایک گروپ کے ساتھ گفتگو میں رہبر معظم انقلاب نے ایک افسوسناک تاریخ کا انکشاف کرتے ہوئے ہماری سرزمین پر امریکی اور برطانوی استعماری رجیم کے دردناک حقائق کو بیان کیا۔
انہوں کہا کہ اب جہاد کی مشعلیں روشن ہو چکی ہیں اور آج دنیا پہلے سے زیادہ امریکہ کے خلاف متحد ہے اور امریکہ کی خونی پالیسیوں کی حقیقت دنیا پر کھل رہی ہے۔
جنرل سلامی نے تاکید کی کہ امام خمینین رح اور رہبر معظم انقلاب کی کوششوں نے عالم اسلام کے سیاسی جغرافیے میں دنیائے اسلام کی سیاسی ادبیات کو داخل کیا اور اسے ایک موئثر طاقت کے طور پر متعارف کرایا۔ دشمنوں نے عالم اسلام کے اسٹریٹیجک محل وقوع پر تسلط جمایا اور مشرقی بحیرہ روم میں صہیونیوں کی موجودگی کا مطلب عالم اسلام کے پہلو میں خونی خنجر کی موجودگی ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی استعمار کے کٹھ پتلی عناصر نے اسلامی اقوام پر غلبہ حاصل کیا جن کا مقصد استحصال کے بیج بونا تھا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف نے کہا کہ صیہونیوں نے 75 سال پہلے دہشت گردی اور جرائم کے ذریعے فلسطین پر قبضہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم اقوام کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ آج بھی وہ اسلامی دنیا کے نوجوانوں کو سیاسی طور پر مفلوج کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن جب ولایت (فقیہ) کا پرچم لہرانے لگے تو مستکبروں کے پاس مسلم قوم کو دھوکہ دینے کا کوئی راستہ نہیں باقی نہیں بچتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صیہونیوں نے بہت سی جنگیں شروع کیں لیکن اسلام انقلاب کے طول حیات میں انہوں جنگ کو اسلامی سرزمین پر مسلط رکھا یوں پچھلے 45 سالوں سے مسلمانوں کی سرزمین پر استکبار نے جنگیں تھونپ دیں تاکہ کہیں اسلام کے نام پر ایک طاقت تشکیل نہ پائے۔ لیکن مسلمانوں نے یہ حقیقت جان لی کہ سعادت اور آزادی کے حصول کا واحد راستہ طاغوت کے خلاف جہاد ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف نے کہا کہ جہاد کی مشعلیں اب روشن ہوچکی ہیں، البتہ جہاد ایک سخت اور مشقت طلب عمل ہے اور فتح کی چوٹیوں کو سر کرنا یقینا مشکل اور دشوار ہے۔ حالیہ جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ در حقیقت ہماری دشمن شناسی کے دس سالہ جہاد تبیین سے بھی زیادہ کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ آج غزہ کے منظر نامے پر امریکہ کی اصلیت(خونخوار چنگیزی جمہوریت) جس طرح کھل کر سامنے آئی ہے اور وہ دنیا کے سامنے ننگا ہوا ہے ہم اسے دنیا کے سامنے کبھی اس طرح نہیں کھول سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج پہلے سے زیادہ دنیا امریکہ کے خلاف متحد ہے اور پہلے سے زیادہ امریکہ کی پالیسیوں کی خونی نوعیت دنیا میں ظاہر ہو رہی ہے۔" جہاد کا پہلا تقاضا محبت اور نفرت ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ ستون مسلمانوں کے دلوں میں بٹھا دیا۔ غزہ میں دشمن کبھی نہیں جیت سکیں گے۔
سردار سلامی نے مزید کہا کہ آج غزہ نے مسلمانوں کے دلوں میں دسیوں سالوں سے انتقام کی صلاحیت پیدا کر دی ہے۔امریکہ کی سب سے بڑی غیر یقینی صورتحال یہ ہے کہ وہ غزہ میں جیت کا تعین نہیں کر سکتا۔ کسی قوم کا محاصرہ اور قتل عام جرم ہے فتح نہیں۔ کیا غزہ کے لوگوں کا قتل عام اسرائیل کے جلد خاتمے کو ملتوی کر سکتا ہے؟ آج اسلام کی تاریخ اپنے حساس ترین مراحل میں ہے اور یہ تلوار پر خون کی فتح کا ایک حسین ترین مظہر ہے۔
آخر میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف نے کہا کہ بسیج اور مسجد کے درمیان اتحاد دشمن کے خلاف ہمارا سب سے مضبوط قلعہ ہے، اور گھر، اسکول اور مسجد ہماری طاقت کے تین کلیدی پہلو ہیں۔