مہر خبررساں ایجنسی نے شفقنا کے حوالے سے کہا ہے کہ فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو شدید دھچکہ لگا ہے۔
حماس نے صہیونی حکومت پر اچانک حملہ کرکے آہستہ فراموشی ہونے کے خطرات سے دوچار مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔
اس حوالے سے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے حماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ صہیونی وزیراعظم کی جانب سے ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا نیاد دور شروع ہونے کے بارے میں دیکھنے والا خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔
حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے حملے کے بعد صہیونی حکومت نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی زبان اور پالیسی ترک کرکے جنگ کی زبان استعمال کرنا شروع کیا اور غزہ میں فلسطینی مجاہدین کے ساتھ جنگی حالت کا اعلان کرنے لگی۔
صہیونی حکومت نے گذشتہ تین دنوں میں وحشیانہ کاروائی کرکے واشنگٹن اور تل ابیب کی سابقہ پالیسی کو مکمل ناکام بنادیا ہے۔
واشنگٹن میں واقع مشرق وسطی کے بارے میں سٹڈی سینٹر کے دفتر کے عہدیدار برائن کیتولیس نے کہا کہ فلسطین میں درپیش حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کا قیام نہایت دشوار لگتا ہے۔
دوسری جانب سعودی وزارت خارجہ نے صہیونی حکومت کے حملوں کے بعد جھڑپوں کے نتائج اور صہیونیوں کی جانب سے مسجد اقصی کی توہین سے حالات مزید سنگین ہونے سے خبردار کیا ہے۔
سعودی محقق عزیز الغشیان نے اس حوالے سے کہا ہے کہ سعودی عرب کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں فلسطینیوں کے حقوق سعودی عرب کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
سعودی حکومت کی جانب سے حالیہ ردعمل سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب سابقہ موقف پر واپس آیا ہے جس کی وجہ سے نتن یاہو کے لئے چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں دونوں کے درمیان کسی معاہدے کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن کے ادارہ برائے مطالعہ بحران مشرق وسطی کے سربراہ یوسٹ ہلٹرمین نے کہا کہ حماس کے اس حملے کا ایک مقصد یہ تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کی گونج میں فراموشی کے خطرے سے دوچار مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔
انہوں نے تاکید کی کہ غزہ اور تل ابیب کے درمیان کشیدگی میں اضافے سے عرب ممالک سخت پالیسی اپنانے پر مجبور ہوں گے جس سے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششیں ماند پڑجائیں گی۔
امریکی خارجہ تعلقات کی کونسل کے محقق اسٹیفن کک نے کہا ہے کہ فقط دو فیصد سعودی شہری اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حامی ہیں۔
ریپبلیکن سینٹر لینڈسے گراہم نے بھی موجودہ حالات کے تناظر میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے امکانات کو معدوم قرار دیا ہے۔