رہبر معظم انقلاب اسلامی کے صیہونی حکومت اور امریکہ کے خلاف الفاظ اور ایرانی فوج کی ڈرون مشقیں عرب دنیا کے چوٹی کے اخبارات کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: پیغمبر اکرم (ص) اور امام صادق (ع) کے یوم ولادت کی مناسبت سے اتحاد کانفرنس میں شریک حکومتی عہدیداروں اور غیر ملکی مہمانوں کے ایک گروپ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے دوران رہبر معظم کی اسلامی ممالک کے اتحاد کی ضرورت اور صیہونی حکومت کی نابودی سے متلعق گفتگو کو عرب اخبارات نے اپنی شہ سرخیوں کا حصہ بنایا۔

عراقی اخبار المراقب نے رہبر معظم انقلاب کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: امام خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی کہ صیہونی حکومت اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف بڑھنے والی قوتیں ایک ہارے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو رہی ہیں۔

آج اسلام کے ساتھ دشمنی پہلے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے، مجرمانہ اقدامات اور توہین آمیز گستاخیاں قرآن کریم کو کمزور نہیں کرسکتی بلکہ ان اعمال کے مرتکب عناصر اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں۔

شام کے روزنامہ "اخبار الوطن" نے رہبر معظم انقلاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: امریکہ شام کا تیل چوری کرتا ہے اور داعش کے دہشت گرد عناصر کو اپنے فوجی اڈوں میں رکھتا ہے تاکہ انہیں ضرورت کے وقت دوبارہ استعمال کیا جا سکے۔

رہبر معظم انقلاب نے تہران میں شام کے سفیر شفیق دیوب سمیت اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں تاکید کی: امریکہ خطے کے ممالک کو سیاسی اور اقتصادی طور پر نشانہ بنا رہا ہے اور ان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔

اگر ہم سب ایران، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب، مصر، اردن اور خلیج فارس کے ممالک بنیادی اور عمومی مسائل میں ایک ہی پالیسی اختیار کریں تو استکباری قوتیں مداخلت کی جرأت نہیں کر پائیں گی۔

لبنانی روزنامہ "اخبار البنا" نے بھی ایران کی مسلح افواج کی ڈرون مشق کے انعقاد کو نمایاں کرنے کے ساتھ رہبر معظم کے احکامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: ایران کی فوج نے منتخب یونٹوں کے 200 ڈرونز کی شرکت کے ساتھ مشترکہ ڈرون مشق کا انعقاد کیا۔


اس مشق کے کمانڈر حبیب اللہ سیاری نے تاکید کرتے ہوئے کہا: مذکورہ مشق ایران کے جغرافیائی علاقے میں جنوب میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان کے گرم پانیوں سے لے کر ملک کے مشرق، مغرب، شمال اور مرکز تک کو محیط ہے۔

اس مشق میں ڈرونز نے سرحدوں کی نگرانی اور مطلوبہ اہداف کا تعین کرنے اور اعلی سطح کی قابلیت کے ساتھ تصاویر  لینے میں کامیابی حاصل کی۔

روزنامہ "العربی الجدید"نے یورپ کے بارے میں لکھا: اس ملک کے انتخابات میں سلواکیہ کے سابق وزیر اعظم کی جیت نے واضح کیا کہ یورپ میں لوگ یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کی مخالفت کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس صورت حال سے بالآخر ماسکو اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کو فائدہ پہنچے گا جب کہ یہ مسئلہ یوکرین سمیت مغربی ممالک کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا۔

سلوواکیہ میں روس کے ساتھ قریب ہونے اور یورپی یونین کی پالیسیوں کے خلاف ردعمل کی لہر زور پکڑ رہی ہے۔

عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار "عبدالباری عطوان" نے رائ الیوم اخبار میں اپنے اداریے میں لکھا ہے: ہر وہ ملک جس نے جمہوریت پھیلانے کے بہانے جنگ شروع کی ہو اور دوسرے ممالک کو تباہ کیا ہو، اسے اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ یہ حقیقت کہ لبنان کی مغرب زدہ حکومت یورپ کے لیے سرحدی محافظ کا کردار ادا کرنے اور شامیوں کو ان ممالک کی طرف ہجرت کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ اس کے لیے باعثِ شرم ہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے حال ہی میں یورپیوں سے انہی کے لہجے  میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تیونس کو تارکین وطن کو یورپی ممالک میں داخلے سے روکنے کے بدلے خیرات کی ضرورت نہیں ہے اور اس ملک میں تعمیراتی منصوبوں کی حمایت کی جانی چاہیے۔

لیبیا نے نیٹو کے طیاروں کی ملک کے مختلف علاقوں پر بمباری سے پہلے دس لاکھ تیونسی، تیس لاکھ مصریوں اور  افریقی ساحل کے دس لاکھ باشندوں کو روزگار کے اچھے حالات فراہم کیے تھے، لیکن امریکہ اور یورپ کی مداخلتوں نے اس ملک سے غیر قانونی ہجرت کو بڑھاوا دیا۔

آج جو لوگ شامی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے لبنان کے آبادیاتی ڈھانچے میں تبدیلی کے بارے میں فکر مند ہیں انہیں ان عوامل پر توجہ دینی چاہیے جن سے یہ رجحان شروع ہوا، یعنی شام پر امریکی حملہ۔ 

عرب ممالک کے 500 ارب ڈالر کے تعاون سے یہ کھیل کھیلنے والے مغربی ممالک کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ شام، لیبیا، عراق اور یمن کو ٹکڑے کرنے کا ان کا منصوبہ ناکام ہوچکا ہے اور انہیں اپنی تباہ کن پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا ورنہ انہیں بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

لبنانی روزنامہ "الاخبار" نے "آرماگیڈون آپشن اب بھی موجود ہے" کی سرخی کے تحت لکھا: یوکرین کی جنگ میں میدان میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود، ہم دیکھ رہے ہیں کہ برطانوی وزیر دفاع تربیتی مشن کے لیے یوکرین میں فوج بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔

یہ الفاظ روسی اور مغربی فریقوں کے درمیان براہ راست تصادم اور جنگ کی سمت میں تازہ ترین پیش رفت ہیں۔ 

قابل ذکر ہے کہ یہ برطانوی اہلکار نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یوکرین میں ہتھیار سازی کارخانے قائم کرنے کے لندن کے ارادے اور بحیرہ اسود میں یوکرین کے جہازوں کی مدد کے عمل میں برطانیہ کی شرکت کے لیے آمادگی کا اعلان کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ روس کے صبر کو ماپنے کے لیے برطانیہ کے اقدامات نے ماسکو میں یوکرین کی جنگ میں لندن کی براہ راست شمولیت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔

شام کے روزنامہ "الثورۃ" نے فرانسیسی نسل پرستی کے بارے میں لکھا: فرانس نے اپنا حقیقی اور نسل پرست چہرہ ظاہر کیا ہے۔ اس ملک کے صحافیوں میں سے ایک پاسکل براڈ نے درست اور مستند اعداد و شمار فراہم کیے بغیر دعویٰ کیا ہے کہ پیرس میں بیڈ بگز کے پھیلاؤ کی وجہ تارکین وطن ہیں۔

لیکن ان کے ان کے ریماکس سے ہمیں بالکل بھی حیرت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ یہ الفاظ دوسروں کے خلاف موجودہ فرانسیسی نظام کی نوآبادیاتی زبان ہیں۔ 
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ فرانسیسی نسل پرست عناصر تارکین وطن کو بدترین الفاظ اور اصطلاحات کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں بلکہ یہ فرانسیسی استحصالی نظام کا پرانا نقطہ نظر اور پالیسی ہے۔ وہی فرانس کہ جو دوسری قوموں کے وسائل اور دولت کو لوٹنے میں ذرہ برابر بھی نہیں شرمایا۔