سوڈانی تجزیہ کار نے افریقہ میں ہونے والی فوجی بغاوتوں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہ مزید افریقی ممالک میں فوجی حکومت قائم ہونے کا امکان ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ افریقہ فوجی بغاوتوں کی سرزمین کے طور پر معروف ہے کیونکہ مختلف افریقی ممالک میں وقتا فوقتا بغاوت کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعات افریقی عوام کے لئے معمول بن چکے ہیں لیکن حال ہی میں نائیجر اور گبون میں ہونے والی بغاوتیں مغربی ممالک کے جابرانہ تسلط کے خلاف بغاوت شمار کی جارہی ہیں۔

یہ بغاوتیں فرانس کے ساتھ تعلقات مکمل منقطع کرنے کا اعلان ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا افریقی ممالک فرانس کو بر وقت اور مکمل طور پر نکالنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ دوسرے الفاظ میں کیا افریقہ میں فرانس کے ہاتھ مکمل طور پر کاٹ دیئے جائیں گے یا اس کمزور براعظم میں فرانس کی حیثیت ختم ہوجائے گی؟

مہر نیوز کے نامہ نگار نے سوڈانی محقق اور تجزیہ کار ڈاکٹر ابراہیم ناصر سے اس حوالے سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

حالیہ مہینوں میں افریقہ میں فوجی بغاوت کے کئی واقعات ہوئے ہیں کیا مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما ہوسکتے ہی؟

ڈاکٹر ابراہیم ناصر: افریقی ممالک کی آزادی کے بعد تقریبا 214 بغاوت کے واقعات ہوئے ہیں۔ سوڈان بغاوت کے لئے سب سے زرخیز ملک ہے جس میں اب تک 17 مرتبہ فوجی بغاوت ہوئی ہے۔ بغاوت افریقہ میں ایک رواج بن چکی ہے لیکن حالیہ بغاوتوں میں عوامی بیداری کی ایک لہر بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی دو دلیلیں ہیں؛

پہلی دلیل یہ ہے کہ عوام رفاہی اور معاشی سطح کو ترقی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں دوسری یہ ہے کہ افریقی عوام فرانس اور امریکہ کے تسلط سے ناراض ہیں۔

ان دو مسائل کی وجہ سے ان ممالک کی مسلح افواج بغاوت پر مجبور ہوئی ہیں۔ اکثر ممالک کے عوام ان بغاوتوں کی حمایت کرتے ہیں البتہ نائیجر کا واقعہ اس سے مختلف ہے جہاں صدر محمد بازوم کی حکومت کو عوام میں مقبولیت حاصل تھی۔ لیبیا کی شہریت رکھنے والے بازوم نے ملک کے بعض بڑے قبائل کی حمایت سے اقتدار حاصل کیا اور فرانس کے سااتھ اتحاد کرتے ہوئے فوجی طاقت حاصل کی۔

افریقی ممالک کی امنیت اور معیشت فرانس سے وابستہ ہے۔ سیاسی قائدین فرانس میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ فرانس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک کو اس سے جدا ہونے کی صورت میں قیمت ادا کرنا ہوگا۔ حالیہ سالوں میں بعض افریقی ممالک نے متوازن پالیسی اپنانے کی کوشش کی اور فرانس کے ساتھ ساتھ روس اور چین کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنا شروع کیا۔ لیکن یہ بے بنیاد کوشش تھی کیونکہ فرانس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کسی اور ملک سے تعلقات کو وسعت دینا ممکن نہیں تھا۔ اسی لئے فرانس کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ اتنی جلدی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ فرانس نے ان ممالک میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ فرانس سے جدا ہونے کی صورت میں ان ممالک کو بھی نقصان ہوگا۔ نائیجر، مالی اور بورکینا فاسو دنیا کے غریب ترین ممالک ہیں لہذا فرانس سے اس قدر جلدی تعلقات منقطع کرنا ان کے لئے ناممکن ہے۔ یہ کام آہستہ اور مرحلہ وار انجام دینا چاہئے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ افریقیوں کو پہلے مرحلے میں اپنے ہدف کو معین کرنا چاہئے اس کے بعد اس تک پہنچنے کا وسیلہ مشخص کرنا ہوگا۔ ان کو اصل مشکل تک پہنچنا ہوگا۔ فرانس سے جدا ہونے کے بعد یورنیم جیسے قدرتی ذخائر کو اپنے فائدے میں استعمال کرنا ہوگا۔

مستقبل میں کن ممالک کے اندر فوجی بغاوت کے امکانات ہیں؟

ڈاکٹر ابراہیم ناصر: بغاوت کا آخری واقعہ چاڈ میں پیش آیا ہے۔ کیمرون میں بغاوت کا احتمال ہے۔ اسی طرح مشرقی افریقی ملک روانڈا میں بھی بغاوت کے امکانات موجود ہیں۔ اگرچہ روانڈا افریقہ کے دوسرے ممالک کی نسبت ترقی یافتہ اور مستحکم ملک ہے لیکن یہاں بھی فوجی بغاوت کا احتمال موجود ہے۔

استحکام ہونے کے باوجود روانڈا میں فوجی بغاوت کیوں ممکن ہے؟

ڈاکٹر ابرہیم ناصر: افریقی ممالک کے پاس اپنے فیصلے اور تقدیر معین کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اپنی سیاسی یا ذرائع ابلاغ کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ اقتصادی طور پر خودمختار نہیں ہیں اسی لئے روانڈا میں فوجی بغاوت کے امکانات موجود ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق روانڈا کی حکومت نے بڑی تعداد میں اعلی فوجی افسران کو جبری ریٹائرمنٹ دی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت فوجی افسران کی جانب سے بغاوت محسوس کررہی ہے۔

مغربی ممالک روانڈا کی فوج کو دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت فوج کی مغرب سے قربت سے خائف ہے اسی لئے اعلی افسران کو ملازمت سے برخاست کررہی ہے۔ کیمرون میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ حکومت نے فوج کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہوئے بعض افسران کو ملازمت سے ریٹائر کردیا ہے۔

افریقہ میں تعلیم کی کیا صورتحال ہے؟

ڈاکٹر ابراہیم ناصر: افریقہ ایک غریب براعظم ہے اسی لئے اکثر ممالک میں تعلیم کی شرح کم ہے۔ ایران تعلیمی حوالے سے مدد کررہا ہے۔ جامعہ المصطفی ایرانی کی تعلیمی مدد کا ایک نمونہ ہے اس کا مقصد افریقہ کو استعمال کرنا نہیں بلکہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ان ممالک کی مدد کرنا ہے۔ روس، ترکی اور چین بھی اس حوالے سے مدد کررہے ہیں۔

افریقہ میں ہونے والی بغاوتوں کے خلاف فرانس اور دیگر مغربی ممالک کا کیا ردعمل ہوگا؟ مخصوصا جب نائیجر کے خلاف کے فرانس نے فوجی کاروائی کی دھمکی دی ہے؟

ڈاکٹر ابراہیم ناصر: مغربی ممالک کی کوشش ہوگی کہ خطے میں بدامنی پھیلانے کے لئے دہشت گرد گروہوں کو استعمال کریں چنانچہ نائجیر کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بعض دہشت گرد تنظیموں کے رہنماوں کو فرانس کے ذریعے آزاد کیا گیا ہے۔

علاوہ ازین ان ممالک کو اقتصادی طور پر بھی دباو میں لایا جائے گا چنانچہ بورکینافاسو اور مالی کے خلاف پابندی لگائی گئی ہے جس کے بعد ان ممالک کو دیوار سے لگایا جائے گا۔ اکواس میں نائیجر کو دیوار سے لگانا بھی سیاسی دباو کا ایک نمونہ ہے۔

آج نائیجر کے اصلی اتحادی بورکینافاسو اور مالی ہیں۔ فرانس کی جانب سے فوجی مداخلت کا نظریہ بے بنیاد ہے کیونکہ فرانس اس وقت صرف ایک افریقی ملک سے روبرو نہیں ہے۔ فرانس تمام افریقی ممالک میں مداخلت کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔