ایرانی محقق اور تاریخی ماہر نے کہا کہ مغربی اور اہل مغرب کی مشکل یہ ہے کہ وہ امام (رح)کو مادی اور دنیوی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب کہ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحریک، وحی الٰہی سے ماخوذ ایک معنوی اور اسلامی تحریک ہے۔

ایرانی محقق اور تاریخی ماہر قاسم تبریزی نے مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار سے گفتگو میں، انقلابِ اسلامی کی استقامت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مغربی اور اہل مغرب کی مشکل یہ ہے کہ وہ امام (رح)کو مادی اور دنیوی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب کہ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحریک، وحی الٰہی سے ماخوذ ایک معنوی اور اسلامی تحریک ہے۔ امام راحل کی یہ صفت اور خصوصیت ان کے کاموں سے ظاہر ہوتی ہے، اسی لئے وہ آج بھی جاویدان ہیں۔

تبریزی نے اپنی گفتگو میں، شہید آیت اللہ باقر الصدر رحمۃ اللّٰہ علیہ کا امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں بیان نقل کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آیت اللہ العظمٰی سید محمد باقر صدر رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ میں اس طرح ضم ہو جائیں جیسے وہ اسلام میں ضم ہو گئے تھے۔

دور حاضر کے تاریخی ماہر نے زور دے کر کہا کہ قرآنی اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر امام کی صحیح تشخیص ممکن ہے، کیونکہ اسلامی معاشروں میں امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک نمونۂ عمل اور علامت کے طور پر متعارف ہیں اور وہ مطلوبہ اسلام عمل کے ساتھ ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اسلامی ہونے کا دعویٰ کریں، لیکن اسلام سے مراد وہ اسلام ہے جس میں عمل معیار ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے عہد کے اسلام کے پیکر تھے

انہوں نے مزید کہا کہ اہل بیت علیہم السّلام کی سیرت میں ہے کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کو قرآن ناطق مانتے ہیں، یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کے عمل میں قرآن مجسم اور جلوہ گر ہے۔ ہمارے دور میں نیز امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ تمام جہتوں سے اسلام کے مجسم اور مظہر تھے اور یہ وہی اسلام ناب محمدی ہے، لہٰذا یہ مسئلہ عالم اسلام میں اور مسلمانوں میں بالخصوص ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور اسی وجہ سے اقوام عالم امام راحل رحمۃ اللّٰہ علیہ سے محبت کرتی ہے اور امام قوموں میں زندہ ہیں۔

قاسم تبریزی نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علمی آثار کا ذکر کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کے 120 فقہی، فلسفی اور عرفانی آثار کے باوجود، ان پر 4000 سے زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں، اگر بالفرض ہم ان کو مدنظر نہ بھی رکھیں تو جلال آل احمد کی تعبیر کے مطابق، جب امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کلام کرتے ہیں تو گاؤں کا ایک دیہاتی اور ایک دانشور بھی ان کے کلام کو درک کر سکتا ہے، کیونکہ وہ لوگوں کے دلوں کی بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بے پناہ محبت اور ان کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔

انہوں نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں رہبرِ انقلابِ اسلامی کے بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رہبرِ انقلابِ اسلامی نے فرمایا: ہمارا راستہ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا راستہ اور ہمارا مقصد امام کا مقصد ہے اور جو نظریہ اور لائن، انہوں نے اسلام ناب محمدی کے طور پر پیش کیا وہ آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے، لہٰذا ہمیں اسلام عقیدتی، ایمانی اور محمدی کی حفاظت کرنی چاہیئے۔

مادی پرست مغرب زدہ، امام کے ادراک سے عاجز ہیں

ماہر تاریخ نے امام خمینی کی سیرت بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی کی سیرت میں اخلاق، معنویت، قربانی، عفو و درگزر، علم و دانش، فلسفہ، عرفان اور اس طرح کے مبانی موجود ہیں اور یہی امام کے جاویدان رہنے کا سبب ہے، لہٰذا، یہ فطری اور عام سی بات ہے کہ مادیت پسند مغربیوں کیلئے ایسے مسائل کا سمجھنا مشکل ہے، جس طرح رسول اللہ (ص) کے زمانے میں کفار کے ایک گروہ نے کہا تھا کہ پیغمبر ہماری طرح انسان ہیں لیکن جب آپ (ص) پر وحی نازل ہوتی ہے تو ہم اسے کیوں نہیں دیکھتے جبکہ وہ اپنی جہالت اور غرور کی وجہ سے ان مسائل کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ بشریت میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آج نشاۃ ثانیہ کے بعد، مغرب مادیت کی لپیٹ میں ہے اور اپنے آپ سے بیزار ہے، لہٰذا وہ ان مسائل کو درک نہیں کر سکتا، لیکن افریقہ، فلپائن، فلسطین اور لبنان جیسے مسلم ممالک میں مسلمان امام کے نظریات سے متاثر ہیں۔

تبریزی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امام سے عقیدت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے، کہا کہ یہاں تک کہ مظلوم، پاکیزہ اور آزادی پسند غیر مسلم بھی امام کے استعمار اور عالمی استکبار کے خلاف پیغمبروں جیسی جدوجہد اور روش سے استفادہ اور آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

لیبلز