مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے وفد کے ساتھ منگل کی شام رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران اور روس کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، مغرب کی فریبکارانہ پالیسیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل المیعاد تعاون، دونوں ملکوں کے انتہائی مفاد میں ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عالمی تغیرات ایران اور روس کے روز افزوں باہمی تعاون کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں، کہا کہ تیل اور گیس کے شعبے سمیت مختلف میدانوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متعدد سمجھوتے موجود ہیں جنھیں پوری طرح سے انجام تک پہنچانا اور عملی جامہ پہنانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور روس کے معاشی تعاون کو خاص طور پر مغرب کی پابندیوں کے بعد نہایت ضروری اور دونوں ملکوں کے مفاد میں بتایا اور یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا کہ جنگ ایک سخت اور تشدد والی چیز ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس بات سے کسی بھی صورت میں خوش نہیں ہوتا کہ عوام الناس جنگ میں پھنسیں لیکن یوکرین کے معاملے میں اگر آپ نے پہل نہ کی ہوتی تو فریق مقابل آگے بڑھ کر جنگ شروع کر دیتا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مغرب والے طاقتور اور خودمختار روس کے پوری طرح خلاف ہیں، نیٹو کو ایک خطرناک تنظیم بتایا اور کہا کہ اگر نیٹو کا راستہ نہ روکا جائے تو پھر وہ ہر حد کو پار کر دیتی ہے اور اگر یوکرین میں اسے روکا نہ جاتا تو کچھ عرصے بعد وہ کریمیا کے بہانے یہی جنگ شروع کر دیتی۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ البتہ آج امریکا اور مغرب، پہلے سے زیادہ کمزور پڑ چکے ہیں اور بے انتہا کوشش اور حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے باوجود، شام، عراق، لبنان اور فلسطین سمیت ہمارے علاقے میں ان کی پالیسیوں کی رینج بہت محدود ہو چکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے مسئلے کو بہت اہم بتایا اور اس ملک پر فوجی حملے کی مخالفت اور اسے روکے جانے کی ضرورت پر مبنی اسلامی جمہوریہ کے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شام کے سلسلے میں ایک اور اہم بات، امریکیوں کا شام کے مشرقی فرات علاقے کے زرخیز اور تیل سے مالامال علاقوں پر غاصبانہ قبضہ ہے، اس مسئلے کو انھیں اس علاقے سے باہر نکال کر ختم کیا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے معاملات میں صیہونی حکومت کی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے صیہونیوں کے خلاف روس کے صدر کے حالیہ موقف کی قدردانی کی۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، آرمینیا کے ساتھ مشترکہ سرحدوں کے بند ہونے کا باعث بننے والی پالیسیوں اور پروگراموں کو قطعی برداشت نہیں کرے گا۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران اور روس کے طویل المیعاد تعاون کو پوری طرح سے دونوں ملکوں کے مفاد میں بتایا اور صدر پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ اور ہمارے صدر جمہوریہ دونوں ہی عملی اقدام کرنے والے اور سنجیدگي سے کام کرنے والے افراد ہیں اس لیے اس عرصے میں دونوں ملکوں کا تعاون اپنے عروج پر پہنچ جانا چاہیے۔
انھوں نے 'رشت-آستارا' ریلوے لائن شروع کرنے کی ضرورت کے بارے میں روس کے صدر کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے حمل و نقل کے شمال - جنوب کاریڈور کی تکمیل کا سبب اور دونوں ملکوں کے لئے سودبخش بتایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح مغرب کی فریبکاریوں کے مقابلے میں چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: امریکی منہ زور بھی ہیں اور عیار بھی ہیں اور سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا ایک سبب، امریکی سازشوں سے دھوکا کھا جانا تھا، البتہ آپ کے دور حکومت میں روس نے اپنی خودمختاری کی حفاظت کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح دونوں ملکوں کے تعلقات میں قومی کرنسی کو استعمال کئے جانے اور ڈالر کی جگہ دوسری کرنسیوں کے متبادل بنانے کی پالیسی کی تائيد کرتے ہوئے کہا: ڈالر کو رفتہ رفتہ عالمی تجارت سے باہر کر دینا چاہیے اور تدریجی طور پر یہ کام ممکن ہے۔
اس ملاقات میں، جس میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے، روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا کہ کوئی بھی جنگ کا حامی نہیں ہے اور عام لوگوں کی جانیں جانا بڑا المیہ ہے لیکن مغرب کے رویے کے سبب ہمارے پاس ردعمل دکھانے کے علاوہ کوئي دوسرا آپشن نہیں تھا۔
انھوں نے روس اور یوکرین کے اختلافات کے اسباب و علل خاص طور پر حالیہ برسوں میں امریکا اور مغرب کے اشتعال انگیز اقدامات منجملہ یوکرین میں بغاوت اور اسی طرح روس کی جانب نیٹو کی ہر طرح کی پیش قدمی سے پرہیز کے وعدوں کے باوجود نیٹو کے پھیلاؤ کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: بعض یورپی ملکوں نے کہا کہ ہم نیٹو میں یوکرین کی رکنیت کے خلاف تھے لیکن امریکا کے دباؤ کی وجہ سے ہم نے اسے تسلیم کر لیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں میں اقتدار اعلی اور خودمختاری نہیں ہے۔
روس کے صدر نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو امریکیوں کی شرانگیزی کا ایک اور نمونہ بتایا اور روس کے خلاف مغرب کی پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ پابندیاں مغرب کے لیے نقصان دہ ہیں اور ان کا نتیجہ تیل کی قیمت میں اضافے اور غذائي اشیاء کے بحران جیسی مشکلات کی صورت میں سامنے آيا ہے۔
جناب ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کی جانب سے دوسرے ملکوں پر پابندی لگائے جانے اور لوٹ مار کے لیے ڈالر کو حربے کے طور پر استعمال کئے جانے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روش آخرکار امریکا کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوگی، اس کرنسی کا عالمی اعتبار کم ہوگا، اور دیگر ممالک متبادل کرنسیوں کی جانب قدم بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا: روس اور ایران، اپنے آپسی تعلقات میں قومی کرنسی کے استعمال کے لیے نئے طریقہ ہائے کار تیار کر رہے ہیں۔
انھوں نے قفقاز کے علاقے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے، شام کے شمالی علاقے پر فوجی حملے کی مخالفت سمیت اس ملک کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے موقف کو ایک دوسرے سے پوری طرح ہماہنگ بتایا اور کہا: مشرقی فرات کا علاقہ، شامی افواج کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔
صدر پیوٹن نے تمام میدانوں اور منصوبوں میں دونوں ملکوں کے تعاون کو آگے کی جانب گامزن بتایا اور کہا: ایران اور روس، شام میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑ رہے ہیں اور فوجی میدان میں بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعاون اور اسی طرح چین کے ساتھ سہ فریقی تعاون اور فوجی مشقوں کو فروغ دیں۔