مہر خبررساں ایجنسی نےرائٹرز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزائی نے طالبان شدت پسندوں کےقطر کے دفتر کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کو امریکہ کے بجائے افغان قیادت سے مذاکرات کرنے چاہییں۔ ادھر قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھلنے سے یہ بات آشکار ہوگئی ہےدنیا بھر کے شدت پسندوں کی پشت پر قطر اور امریکہ دونوں کا ہاتھ ہے۔افغانستان کے صدر حامد کرزائی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اس وقت تک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہو گی جب تک بات چیت کا یہ عمل ’افغان قیادت‘ میں نہیں ہوتا۔
افغان صدر کی جانب سے امن مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک دن پہلے ہی امریکہ نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہے۔ طالبان نے منگل کو قطر کے دارلحکومت دوحہ میں دفتر کھولا ہے۔
ادھر طالبان کے ترجمان ملا محمد نعیم کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ منصوبے کے تحت مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔بعض ذرائع کے مطابق افغانستان میں سرگرم طالبان شدت پسند ہمیشہ امریکہ کی مٹھی میں رہے ہیں کیونکہ طالبان شدت پسندوں کی سرپرستی کرنے والے عرب حکمراں امریکہ کی مٹھی میں ہیں اور طالبان کی شدت پسندانہ اور بہیمانہ کارروائياں امریکی اہداف کے سلسلے کی اہم کڑي ہیں امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان شدت پسندوں کی طرف سے بم دھماکے ، عوام کا قتل عام اور اولیاء کرام کے مزاروں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رہے تاکہ امریکہ طالبان کی کارروائیوں کو بہانہ بنا کر خطے میں اپنی موجودگی کا جواز باقی رکھے، ورنہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات افغانستان کی خونریز جنگ کے بغیر بھی کرسکتا تھا۔ امریکہ نےہی طالبان کو جنم دیا اور پھر اس نے طالبان کو ختم کرنے کے لئے افغانستان کا رخ کیا اور آج وہ پھر طالبان کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے تیار ہے چاہے کرزائی راضی رہے یا ناراض رہےاور خود کرزائی کا اقتدار بھی امریکہ کی مرضی پر منحصر ہے۔
آپ کا تبصرہ