مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛طوفان الاقصی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فوجی طاقت کا بت پاش پاش ہوگیا۔ 7 اکتوبر کو مقاومتی محاذ نے صہیونی کابینہ اور عوام پر کاری ضرب لگائی۔ طوفان الاقصی کے اثرات زائل ہونے سے پہلے اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے مزید مشکلات کو دعوت دی۔
اس حملے کے بعد تہران اور تل ابیب کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ تل ابیب حکام نے تہران کے صبر و تحمل سے غلط اندازہ لگایا تھا جس کی وجہ سے "وعدہ صادق" آپریشن کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایران نے اسرائیل کے اندر جاکر اہم دفاعی اور فوجی تنصیبات کو کامیابی کے ساتھ ہدف بنایا۔ طوفان الاقصی کے بعد گذشتہ دنوں ایرانی حملے کے بعد غلط اندازے لگانے کے جرم میں اسرائیل فوج کے اعلی ترین آفیسر جنرل آئرن ہالیوی کو اپنے منصب سے استعفی دینا پڑا۔
جنرل ہالیوی اسرائیل کا شکست خوردہ فوجی افسر
57 سالہ جنرل ہالیوی کے ماں باپ کا تعلق مراکش سے تھا۔ وہ حیفا میں پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے انہوں نے اسرائیلی فوج میں لاجسٹک سپورٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے کی سربراہی کی۔ انہوں نے کئی فوجی یونٹوں کی بھی قیادت کی تھی۔ لبنان اور غزہ کی جنگوں میں انہوں نے حصہ لیا تھا۔ ان کے دور میں صہیونی فوج میں ہتھیاروں کی چوری کا واقعہ بھی پیش آیا جس کی وجہ سے ان کو جنگی امور کی کمیٹی کے سامنے بھی حاضر ہونا پڑا۔
دوسرے اسرائیلی رہنماوں کے برعکس ان کا ماننا تھا کہ اسرائیل کو فلسطینی مقاومتی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ طوفان الاقصی کے بعد حماس اور حزب اللہ کے اہم اراکین کو ٹارگٹ کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپی گئی تھی۔
جنرل ہالیوی، ایران کی کاروائی کے بعد اولین قربانی
اسرائیل انٹیلی جنس نظام میں موساد اور شین بٹ کے بعد آمان کو تیسرے رکن کی حیثیت حاصل ہے جس بیرونی خطرات پر خصوصی نظر رکھتا ہے۔ ان تینوں اداروں میں سے کسی ایک کی بھی غلطی اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔ آمان کے سربراہ جنرل ہالیوی نے اسی وجہ سے 22 اپریل کو اپنا استعفی پیش کیا کیونکہ طوفان الاقصی آپریشن میں ان کو شکست ہوگئی تھی۔ انہوں نے اپنا استعفی منظر عام پر لانے سے پہلے اسرائیلی چیف آف سٹاف جنرل ہارٹز ہالیوی اور وزیر جنگ گلانٹ کے ساتھ گفتگو کی تھی۔
اسرائیل ٹائمز کے مطابق 7 اکتوبر کو جنرل آئرن ہالیوی اپنی ڈیوٹی پر رہنے کے بجائے چھٹیاں منارہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ان کے استعفی کے دیگر اسباب بھی تھے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل کے اندر گھس کر نواطیم اور صحرائے نقب میں جوابی حملوں کے بارے میں ان کے غلط اندازوں کی وجہ سے اسرائیلی حکام کے اندر اختلافات بڑھ گئے جس کی وجہ سے ان کو استعفی دینا پڑا۔
صہیونیوں کا ردعمل، نتن یاہو مشکل میں
صہیونی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپیڈ نے جنرل ہالیوی کے استعفی کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنرل ہالیوی کی پیروی کرتے ہوئے نتن یاہو کو بھی مستعفی ہونا چاہئے۔ نتن یاہو کو طوفان الاقصی اور ایرانی جوابی حملے میں اسرائیلی شکست کا اصل ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے لہذا ان کے استعفی کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے۔
صہیونی چینل 14 کے نامہ نگار نے کہا ہے کہ صہیونی ملٹری انٹیلی جنس چیف کو استعفی دینے کے بجائے دوسرے افراد کے ہمراہ تحقیقاتی کاروائی کا سامنا کرنا چاہئے۔ نتن یاہو کے قریبی ساتھی بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ طوفان الاقصی میں شکست کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات ضروری ہیں۔
استعفوں کا سلسلہ جاری
صہیونی فوجی افسران کی جانب سے استعفوں کے سلسلے میں تازہ ترین خبر کے مطابق اشباح بریگیڈ کے سربراہ نے اچانک اپنا استعفی پیش کردیا ہے۔ یہ بریگیڈ اس وقت غزہ میں مصروف ہے۔ سربراہ کا استعفی اس کی کارکردگی پر برا اثر چھوڑے گا۔
دوسری جانب صہیونی ذرائع ابلاغ نے فوجی خصوصی دستے "رفائیم: کے کمانڈر کے استعفی کا انکشاف کیا ہے۔ یہ کمانڈر جنگ کے آغاز سے غزہ میں کاروائی میں حصہ لے رہا تھا۔ صہیونی اخبار یدیعوت احارونوت کے مطابق مزید فوجی افسران کے استعفوں کا بھی عندیہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جن میں سے چیف آف سٹاف جنرل ہرٹزی ہالیوی کا نام قابل ذکر ہے۔ ان کے نائب کے بارے میں ابھی سے مشورے کئے جارہے ہیں۔
اخبار نے کہا ہے کہ جنرل آئزن ہالیوی کے بعد جنرل ہرٹزی ہالیوی سمیت مجموعی طور پر 8 فوجی افسران کے استعفوں کا امکان ہے جن میں شاباک کے سربراہ بھی شامل ہیں۔
حرف آخر
جنرل آئزن ہالیوی کے استعفی کے بعد مزید افسران استعفی دیں گے۔ انہوں نے اپنا استعفی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ طوفان الاقصی کی شکست قبول کرتا ہوں۔ اس شکست کے حوالے سے مکمل اور جامع تحقیقات کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
آئندہ چند دنوں میں شین بت کے سربراہ، جنرل ہرٹزی ہالیوی اور وزیرجنگ گلانت کی جانب سے استعفوں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نتن یاہو کی جانب سے استعفوں کا بحران ٹالنے کے لئے رفح پر حملے کا ڈرامہ کہاں تک کامیاب رہتا ہے۔ کیا اس طرح نتن یاہو اپنی کابینہ کو بچاسکیں گے یا آخر میں صہیونی کابینہ بھی تحلیل ہوکر اسرائیل میں عام انتخابات ہوں گے؟