مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، علاقائی اسٹریٹجک امور کے ماہر عبدالباری عطوان نے ایک رپورٹ میں بحیرہ احمر کے واقعات میں امریکہ اور برطانیہ کے اسرائیل کے فریب میں آنے کا ذکر کرتے ہوئے یمنی افواج کے حالیہ حملے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
عبد الباری عطوان نے لکھا ہے کہ جس آئل ٹینکر کے ساتھ دو فوجی جہاز تھے اس پر حملے کے نتیجے میں زبردست آگ لگ گئی ہے۔
گویا صیہونی حکومت نے امریکہ، برطانیہ اور بعض دیگر اینگلو سیکسن ملکوں جیسے آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کو دھوکہ دے کر ایک جھوٹا اتحاد قائم کروایا ہے جس کا نام اگرچہ بحیرہ احمر کی خوشحالی ہے، لیکن حقیقت میں یمنی میزائلوں کے خلاف اسرائیلی بحری جہازوں کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ اتحاد نہ صرف اپنے مطلوبہ اہداف میں سے کسی کو حاصل نہیں کرسکا بلکہ اس سے خطے کی پیچیدہ صورت حال میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
عطوان نے لکھا کہ اس اتحاد نے نہ صرف اسرائیلی بحری جہازوں کی حفاظت نہیں کی بلکہ امریکہ اور برطانیہ کو بھی ایک ایسے جال میں پھنسا دیا جو بالآخر انہیں مزید ناکامی کے دہانے پر پہنچا دے گا، جیسا کہ افغانستان اور عراق میں انہیں شکست ہوئی جس کے نتیجے میں جانی نقصانات کے علاوہ مزید سنگین معاشی نتائج بھی بھگتنے پڑیں گے۔
انہوں نے ماضی کے عملی تجربات سے سبق حاصل کرنے میں امریکہ کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ سعودی اماراتی جنگ کے گزشتہ 8 سال کے دوران دسیوں ہزار فضائی حملوں میں یمنی قوم پر لاکھوں ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا گیا لیکن ان تمام حملوں کے باوجود وہ یمنی قوم کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کرسکے بلکہ وہ یمنیوں کے مطالبات ماننے پر مجبور ہوگئے۔
یہاں جو سوال قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی مارٹن گریفتھس کے تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا کہ جنہوں نے پس پردہ مذاکرات میں عارضی جنگ بندی تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب کہ یہ دونوں ملک یمن کے ساتھ جنگ کے اسرائیلی جال میں پھنس چکت ہیں جس میں ان کی شکست یقینی ہے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ ان دونوں ممالک نے ان عوامل کے بارے میں غور کیوں نہیں کیا جنہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یمن مخالف اتحاد میں شامل نہ ہونے پر مجبور کیا۔
امریکہ اور برطانیہ نے اپنے آپ سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ مصر، سوڈان، صومالیہ اور جبوتی جیسے ممالک یمن مخالف اتحاد میں شامل کیوں نہیں ہوئے جب کہ یہ ممالک بحیرہ احمر کے ساحل پر ہیں اور ان میں سے اکثر امریکہ کے اتحادی بھی ہیں لیکن وہ اس اتحاد میں شامل نہیں ہوئے۔
دوسری طرف صنعاء کی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس لاکھوں عربوں، مسلمانوں اور دنیا کے آزاد لوگوں کی ایک وسیع بنیاد ہے، اسی لئے وہ غزہ میں نسل کشی کے شکار مظلوم، محصور اور بھوکے لوگوں کی مدد کو پہنچی ہے۔
اس سینئر علاقائی تجزیہ کار نے مزید لکھا ہے کہ بحیرہ احمر میں امریکی اور برطانوی فوجی مداخلت کے بعد یمنی افواج کے مشن میں وسعت آئی ہے اور اہم جواز پیدا ہوگیا ہے جو کہ دو پہلوؤں سے نہایت اہم ہے:
پہلا معاملہ امریکی اور برطانوی حملوں کے نتیجے میں اپنی جانیں گنوانے والے یمنی شہداء کے انتقام کی قانونی حیثیت کا ہے اور دوسرا معاملہ غزہ کی پٹی کے ان مظلوم فلسطینی بھائیوں کی حمایت کا ہے جنہیں بدترین نسل کشی اور بھوک و افلاس کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ ان حالات میں کہ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے نسل کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا اور صیہونی رجیم کو غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دینے کے لئے ایک ماہ کا وقت دیا۔