مہر خبررساں ایجنسی_ سیاسی ڈیسک؛ ھبۃ اللبدی ایک فلسطینی لڑکی ہے جو 20 جولائی 2019 کو صہیونی کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور تین ماہ بعد آزاد ہوئی۔ انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال کی تھی جس کی وجہ سے جلدی رہائی ملی۔ 36 سالہ ھبۃ ان دنوں لبنان میں مقیم اور تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہے۔
لبنان میں بک فئیر کے دوران انہوں نے ایرانی سٹال کا دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے صہیونیوں کی جیل میں ہونے والے تلخ تجربات کے بارے میں کہا۔ احوال پرسی کی غرض سے ہونے والی مختصر ملاقات 40 منٹ طول پکڑ گئی۔
ھبۃ اللبدی کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز؛ آپ صہیونی کی قید میں تھیں انہوں نے آپ قتل کیوں نہیں کیا؟
اللبدی: نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر آپ کو راستے سے ہٹادیں تو ان کے لئے بہتر ہے اور اس کی زیادہ قیمت بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اگر آپ جیل میں رہیں تو بالاخر آزاد ہوں گی چنانچہ ایسا ہوا اب آپ ایک نمونہ بن گئیں پس کیا صہیونیوں کے لئے بہتر نہیں تھا کہ آپ کو جیل میں ختم کردیں؟
اللبدی: نہیں وہ ایسا کرنے کی جرائت نہیں کرسکتے
کیوں؟ وہ اپنی مرضی سے ہر کام کر گزرتے ہیں عالمی برادری بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔اس طرح ان کو 11 ملین لوگوں کو مارنا ہوگا جس کی ان کے پاس طاقت نہیں ہے اسی وجہ سے فلسطینیوں کو جیل میں ڈالتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بھی اس کی عادت ہوچکی ہے۔ ہر دفعہ جیل میں جاتے ہیں پھر آزاد ہوجاتے ہیں۔ اسرائیلی ہمیں قتل کرنا چاہتے تو ہیں لیکن ایسا کرنے کی جرائت نہیں رکھتے اسی لئے گرفتار کرلیتے ہیں۔
مہر نیوز؛ جیل میں آپ پر تشدد کیا گیا؟
ہاں بہت وحشتناک سلوک کیا گیا۔
کیسے؟ بجلی کے جھٹکے؟ بدسلوکی؟ کیسا سلوک؟
میرے چہرے پر طمانچے مارتے تھے، گھونسے مارتے تھے، بال سے پکڑ کر کھینچتے تھے۔ میں جیل میں جانے سے پہلے بے حجاب رہتی تھی اور میرے بال کھلے ہوتے تھے۔ اسرائیلی اسی بات پر خوش تھے۔
کیوں؟
مہر نیوز؛ جب شروع میں تفتیش کے لئے مجھے کرسی پر بٹھایا گیا تو یہی سوال کیا گیا کہ میرا عقیدہ کیا ہے؟ اسلام اور پیغمبر اسلام کو مانتی ہو؟
کیا آپ مانتی تھیں؟
میں ایک فلسطینی تھی اور ان چیزوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ میرے ماں باپ مسلمان اور باپردہ تھے لیکن میں نہیں؛ میرا دین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی اسرائیلیوں کے لئے خوشی کا باعث تھا۔
مہر نیوز؛ آپ کی شہریت فلسطینی ہے؛ صحیح ہے؟
فلسطین اور اردن دونوں کے پاسپورٹ ہیں اسی لئے فلسطین جاتی رہتی تھی اسی دوران گرفتار ہوئی تھی۔ میں اپنے گھر پر تھی تو انہوں نے چھاپہ مارا اور مجھے گرفتار کرلیا۔ میری ماں اور خالہ بھی موجود تھیں۔
مہر نیوز؛ ان کو بھی گرفتار کرلیا؟
نہیں چونکہ میں جوان تھی اس لئے فقط مجھے لے گئے۔
مہر نیوز؛ کس جیل میں لے گئے؟
مجھے مختلف جیلوں میں جانے کا تجربہ ہے۔ پہلے یروشلم اور حیفا منتقل کیا گیا اس کے بعد دمون کی ایک جیل میں لے گئے۔ ایک جیل ایسی تھی جس میں 200 فلسطینی کمسن لڑکے اور لڑکیوں کو رکھا گیا تھا۔ ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مجھے راملہ اور دوسری جگہوں پر جیل میں لے جایا گیا۔
مہر نیوز؛ واقعی؟ آپ رملہ میں بھی تھی؟
ہاں؛ بدترین اور وحشتناک مناظر تھے یقین جانئے وہاں متعدد خواتین قید میں بند تھیں۔
مہر نیوز؛ آپ سے تفتیش کرنے والے مرد تھے یا عورت؟
مرد؛ البتہ مردوں اور عورتوں دونوں نے تفتیش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی بہت بزدل ہیں۔ گرفتاری کے دوران ایک وقت کسی چھوٹے کمرے میں مجھے رکھا گیا تھا جہاں کیمرے نصب تھے جس کے ذریعے 24 گھنٹے اسرائیلی کمانڈ کو تصویریں بھیجی جاتی تھیں۔ اس سیل میں اکیلی تھی۔ جب کھانا دیا جاتا تھا تو ایک سپاہی پہلے میرے ہاتھ باندھ دیتا تھا تاکہ کوئی حرکت نہ کرسکوں اس کے بعد دوسرا سپاہی کھانا میرے پاس رکھتا تھا۔
پوری یہودی قوم میں یہ خوف و ہراس پایا جاتا ہے
ہاں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ہمیشہ کسی کا خوف ان کے دل میں ہوتا ہے
میں گرفتار ہونے سے پہلے اسلام اور قرآن کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتی تھی اور ایران کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی تھی لیکن آزاد ہونے کے بعد حضرت زینب علیہا السلام اور ان کی شخصیت کے بارے میں آشنائی سے میری زندگی بدل گئی۔
مہر نیوز؛ پس ایک بے دین لڑکی تھی؟
ہاں؛ جب اردن میں پرائمری سکول میں پڑھتی تھی تو دین کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں سکھایا جاتا تھا۔ ہمارے اساتذہ کہتے تھے کہ کوثر بہشت میں ایک دریا کا نام ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ سورہ حضرت فاطمہ زھرا علیہا السلام کی شان میں نازل ہوا ہے۔ ایران کے بارے میں بھی یہی کہتے تھے کہ وہ ٹولہ ہے جو کافر اور بے ایمان ہے۔
یہودی وہاں بھی بہت سرگرم ہیں۔
بولا کہ جیل میں جانے سے پہلے نہ اسلام کے بارے میں کچھ آشنائی تھی اور نہ حضرت زینب علیھا السلام کو جانتی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ میری ماں جو مسلمان اور باحجاب تھی اور ساتھ ساتھ تعلیمیافتہ بھی لیکن سورہ کوثر کے شان نزول کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ میرے ماں باپ اچھے انسان ہیں لیکن اہل بیت کی معرفت نہیں رکھتے تھے۔
گویا آپ زندگی کے دو مرحلے ہیں؛ گرفتاری سے پہلے اور گرفتار کے بعد!
مہر نیوز؛ بہت صحیح، گتا ہے کہ یہ گرفتاری آپ کے لئے ضروری تھی جس سے آپ کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا!
درحقیقت جب حضرت زینب علیھا السلام کے بارے میں آشنائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایک عورت اپنے زمانے کے ظالم اور جابر حاکم کے سامنے کھڑی ہوکر تقریر کرسکتی ہے۔ اسرائیلی میری بے پردگی اور بے حجابی سے خوش تھے کیونکہ میں بھی ان کی طرح ہی تھی۔
شاید اس لئے کہ آپ نے دین اور قومی ثقافت کو پس پشت ڈال کر مغربی اور یہودی طرز زندگی اختیار کیا تھا۔
جی ایسا ہی ہے۔ جب ان کی طرح لگ رہی تھی تو مجھ سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن جب میں چادر سر پر رکھنا شروع کیا میں اب حضرت زینب علیہا السلام کی طرح ان کے مقابلے میں کھڑی ہوں اور اب میری نظروں میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اردن کی یونیوسٹیوں میں بھی ایران کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ فلسطین، اردن اور مسلمان ممالک کے لوگ ایران اور اسلام کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے ہیں۔
مسئلہ یہی ہے؛ مسلمان عوام کی بات نہیں ہورہی بلکہ مسلمان ممالک کےحکمران بھی فلسطین کو دینی سے قومی مسئلہ قرار دیتے ہیں اسی لئے اب تک فلسطین کی آزادی کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہودی کی دولت اور طاقت کے سامنے جھک جاتے ہیں جس سے فلسطین فراموشی کے سپرد ہوجاتا ہے۔ قدس کو آزاد کرنے والے ایران اور عرب عوام ہیں نہ اسلامی ممالک کے حکمران
جی ہاں وہ یزید کی طرح ہیں یزید اور دوسرے خلفا کی تاریخ ہم نے پڑھی ہے۔ میں جیل سے آزاد ہونے کے بعد امام موسی کاظم علیہ السلام سے بھی آشنا ہوئی ہوں۔ انہوں نے ہارون الرشید کے زندان میں بہت سختیاں برداشت کیں۔ میری اطلاعات کم ہیں۔ میں نے جیل سے رہا ہونے کے بعد حضرت زینب علیہا السلام کا نام سن کر پڑھنا شروع کیا۔ کتابوں کا مطالعہ کیا اسطرح مجھے حضرت امام حسین علیہ السلام کےبارے میں آگاہی ہوئی۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام علی علیہما السلام سے بھی آگاہی ہوئی یہ شخصیات ابھی تک پہچانی نہیں گئی ہیں۔
جب میں قید میں نہیں گئی تھی، دوسرے جوانوں کی طرح سید حسن نصراللہ کی فین تھی۔ لبنانی جوانوں کی طرح ان کو پسند کرتی تھی کیونکہ ان کی شخصیت اس کی قابل ہےالبتہ اس میں جہاد کو قبول نہیں کرتی تھی۔
مہر نیوز؛ اب کیسی ہیں؟
یقیینا اب ایک مجاہد بن چکی ہوں۔ میرے سر پر موجود حجاب میرا ہتھیار ہے۔ میں اندر سے ایک جنگجو ہوں جس نے حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام کے مکتب میں درس حاصل کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں۔
امام خمینی کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ فلسطین کو قومی مسئلے سے نکال کر دینی مسئلہ بنایا تھا۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کا اعلان کیا جبکہ عرب حکمران صہیونیوں کے جال میں پھنس کر مذکرات میں مصروف تھے
ہاں بالکل درست ہے۔
لیکن امام خمینی نے کہا کہ فلسطین اسلام کے بدن کا حصہ ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو آزادی قدس کے لئے آمادہ کیا۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت زینب علیہھا السلام سے آگاہ ہونے کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای تھے جن کے بارے میں مجھے آگاہی ہوئی۔ سید حسن نصراللہ ہمیشہ ان کے بارے میں کہتے تھے اس لئے مجھے ان کے بارے میں مطالعہ کرنے کا شوق ہوا۔ سورہ ممتحنہ کی تفسیر جو آیت اللہ خامنہ نے کی ہے، اس کو پڑھ کر ان کے افکار سے آگاہی ہوئی۔
سید حسن نصر اللہ کے بقول آیت اللہ خامنہ ای کی یہ عادت مجھے بہت اچھی لگی کہ اپنے عوام کے ساتھ نہایت مہربان اور صہیونی دشمنوں کے ساتھ نہایت سخت اور سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں۔
یعنی قرآن کے مطابق «اشداء علی الکفار! رحماء بینهم!»
بالکل ایسا ہی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے بعد حاج قاسم سلیمانی کے بارے میں آشنائی ملی۔ وہ ایک بہادر انسان تھے۔ وہ ہمارے اور دوسرے مجاہدین کے لئے بہت عزیز ہیں۔
آخر میں طوفان الاقصی کے بارے میں گفتگو کریں جو آج کل مقبوضہ فلسطین میں جاری ہے۔
جس بات نے میری روح اور جان کو الجھا کر رکھ دیا ہے، اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کی باتیں ہیں۔ قیدی عورتیں اور لڑکیاں کہتی تھیں کہ عزالدین قسام بریگیڈ اور دوسری تننظیموں کے مجاہدین آئیں گے اور ہمیں قید سے نجات دلائیں گے۔ جیل میں قیام کے دوران میں بھی یہی سوچتی تھی کہ اچانک جیل کے دروازے کھل جائیں گے اور مجاہدین آکر ہمیں آزاد کرلیں گے۔
اب میں سوچتی ہوں کہ فلسطینی خواتین کی یہ امید پوری ہونے کے ایام بہت نزدیک ہیں۔