اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ رئیسی نے امریکی خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ایک گروپ سے ملاقات میں کہا کہ امریکہ اب تک سمجھ چکا ہو گا کہ ایرانی قوم کے خلاف پابندیوں یا دھمکیوں کی صورت میں طاقت کی زبان استعمال کرنا کوئی موثر ہتھیار نہیں ہے اور یقیناً ہمارا فیصلہ عملی اقدامات پر ہوگا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی، جو اقوام متحدہ کی 78ویں جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک گئے ہوئے ہیں، نے پیر کی شام امریکی خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ایک گروپ سے ملاقات اور گفتگو کی۔

 اس ملاقات میں ایٹمی معاہدے اور ایران امریکہ تعلقات کے امکانات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اپنی ذمہ داریوں پر مکمل عمل درآمد کے باوجود امریکی حکومت کی جانب سے JCPOA کی خلاف ورزی کی گئی۔

 انہوں نے  کہا کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی اور اس کے اپنے وعدوں پر واپس آنے کے اعلان کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی تیاری کا اعلان کیا اور ایک اچھے معاہدے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کی پیروی کی، لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ مخالف فریق نے اپنے وعدوں پر پھر سے عمل نہیں کیا۔

ایرانی صدر نے گزشتہ سال کے فسادات سے متلعق امریکہ کی غلط فہمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: امریکی حکومت نے بعض بظاہر ایرانی کرائے کے عناصر کے غلط مشوروں اور خفیہ اداروں کے غلط اندازوں کی وجہ سے مذاکرات کو ترک کر کے فسادات کے نتائج سے امید باندھ لی جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران روشنی کا ایک ایسا تناور درخت ہے جس کے استحکام پر ان فسادات اور منحرف تحریکوں کا کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔ 

ڈاکٹر رئیسی نے ایران کے خلاف مشترکہ ہائبرڈ جنگ پر ایرانی قوم کی فتح کو ماضی کی دشمنیوں کے خلاف قومی فتوحات کا جیسے دفاع مقدس میں ایران کی فتح  اور ظالمانہ پابندیوں پر قابو پانے کا تسلسل قرار دیتے ہوئے مزید کہا: ایرانی قوم کے دشمنوں نے شام کے ماڈل کو ایران میں دہرانے کی کوشش کی لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی کیونکہ وہ ابھی تک ایرانی عوام اور اسلامی انقلاب کو نہیں سمجھ سکے۔ 

انہوں نے ملک کے خلاد دشمن کے بدامنی اور فسادات کے منصوبے کی ناکامی کے بعد دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی امریکہ کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات بعض ممالک کی طرف سے کئے گئے تھے اور قیدیوں کا حالیہ تبادلہ اس کے اثرات میں سے ایک تھا۔

 شہید سلیمانی کو قتل کرنے میں ٹرمپ کے جرم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رئیسی نے اس بہادر جنرل کو خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کمانڈر اور ان کے قتل کو دہشت گردی کے خلاف قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہید سلیمانی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کمانڈر تھے۔ اور اگر جنرل سلیمانی نے داعش کہ جس کے بارے میں خود امریکہ میں واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ اس امریکہ نے بنایا، کو نہ روکا ہوتا تو آج پورے یورپ میں دہشت گردی پھیل رہی تھی۔
 
انہوں نے شہید سلیمانی کے قتل کو ریاستی دہشت گردی کی بدترین کی مثال قرار دیتے ہوئے اس بھیانک جرم کے مرتکب افراد کے عدالتی ٹرائل پر زور دیا۔ 

اس ملاقات میں ڈاکٹر رئیسی نے بین الاقوامی آبی گزرگاہوں کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس میں امریکیوں کی موجودگی اور بحری جہازوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان پر قبضہ جمانے کی کوشش نے خطے میں عدم تحفظ اور سکیورٹی کے مسائل پیدا کردئے ہیں۔

ایران کی برکس میں شمولیت کے اثرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں صدر رئیسی نے دنیا کی معیشت اور جی ڈی پی میں رکن ممالک کے شاندار کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ خطے میں ایران کی شاندار صلاحیتوں اور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے ایران کی اس گروپ میں شمولیت سے اسے مزید طاقتور بنانے میں مدد ملے گی۔

 ڈاکٹر رئیسی نے کہا کہ پابندیوں کے بارے میں بائیڈن نے آغاز میں کہا تھا کہ وہ JCPOA سے دستبرداری کے ٹرمپ کے طریقہ کار کو قبول نہیں کرتے لیکن ابھی تک ہم نے عملی طور پر کوئی مختلف رویہ نہیں دیکھا۔ توقع یہ ہے کہ اگر امریکی حکومت اپنے وعدوں پر لفظی طور میں عمل پیرا ہے ہونے کا دعوی کرتی ہے تو اسے چاہئے کہ عملی طور پر وعدہ پر  پابندی ثابت کرے۔

 ڈاکٹر رئیسی نے ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے اس اعلان کو کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں پرامن ہیں کو ایران کے خلاف پابندیوں کے ظالمانہ ہونے کی واضح وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی قانون، ضابطے اور نگرانی سے پہلے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فتوے کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کو ممنوع سمجھتا ہے۔

ایران میں خواتین کی سماجی حیثیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں صدر رئیسی نے خواتین کی مختلف سائنسی اور کھیلوں کے میدانوں میں کامیابیوں کع بیان کرنے کے ساتھ سیاسی، انتظامی اور سماجی شعبوں میں ان کی موثر موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے واقعات میں مغرب کی طرف سے ایرانی خواتین کے دفاع کو ایک دھوکہ دہی اور فریب کارانہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا: پچھلے سال کا واقعہ کہ جس میں ایک لڑکی حادثے کا شکار ہوئی اور تمام طبی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کہ پولیس کی طرف کسی قسم کی جسمانی چوٹ نہیں آئی تھی، لیکن کیا مغربی اور امریکی میڈیا اس حقیقت کی عکاسی کرنے پر راضی ہوا؟ بالکل نہیں!

ڈاکٹر رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خواتین قیدیوں کا تعلق امریکہ سے ہے مزید کہا: حال ہی میں امریکہ میں ایک نوجوان حاملہ خاتون کو امریکی پولیس نے ایک دکان سے چوری کے شبہ میں قتل کر دیا تھا جو کہ پچھلے سال پیش آنے والے ان 1,200 واقعات میں سے ایک ہے جو امریکی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے لیکن کیا امریکی میڈیا اس کی اصل وجہ تلاش کرنے کے لئے تیار ہے؟ وہ اس طرح کے قتل کی تفصیلات کیوں واضح نہیں کرتا؟

یوکرین کی جنگ کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے ثالثی کے لیے تیار ہیں، لیکن امریکی عوام کا ٹیکس جنگی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان کی اجیبیں بھرنے اور جنگوں کی تجارت میں اڑایا جاتا ہے۔ 

انہوں نے ایران کی طرف سے روس کو ہتھیاروں کی فراہمی کے دعوے کو حقیقت سے عاری قرار دیتے مزید کہا: امریکی حکومت کو ہماری نصیحت یہ ہے کہ جنگی کھیل بند کر کے اور اقوام پر پابندیاں لگانے سے باز رہے۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ امریکہ گزشتہ 250 سالوں میں صرف 20 سال تک جنگ میں نہیں رہا۔

صدر رئیسی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ نے کبھی بھی مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے نقطہ نظر اور اقدامات کے لیے واضح اور مضبوط منطق ہے، کہا کہ جنوبی کوریا میں ایران کے ریلیز ہونے والے اثاثے ایران کا حق تھا اور امریکہ کو جواب دینا چاہیے کہ کیوں اس نے ہماری قوم کے حق کو ظالمانہ طریقے سے روکا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اب تک سمجھ چکا ہو گا کہ ایرانی قوم کے خلاف پابندیوں یا دھمکیوں کی صورت میں طاقت کی زبان استعمال کرنا کوئی موثر ہتھیار نہیں ہے اور یقیناً ہمارا فیصلہ عملی اقدامات پر ہوگا۔  ہمارا اعتماد اس وقت بحال ہوگا جب امریکہ اپنے جابرانہ رویے کو ترک کرکے کے وعدوں پر عمل کرے لیکن امریکہ اس میدان میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔