مہر خبررساں ایجنسی، گروہ دین و عقیدہ- عصمت علی آبادی؛ آج 18 ذی الحجہ کا دن ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول پر وحی نازل کی اور اپنا پیغام پہنچانے کا حکم دیا۔ غدیر کا پیغام پہنچانے کے بعد دین مکمل اور نعمتیں تمام ہوگئیں۔ مخالفین اور دشمن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے مشکلات کھڑی کرنا چاہتے تھے جس کی طرف اللہ تعالی نے بھی اسی واقعے سے مربوط آیت میں اشارہ کیا ہے اور آنحضرت کو بچانے کا وعدہ کیا ہے۔
شیعہ اور سنی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کے ذریعے آپ کی امامت کا اعلان فرمایا۔ جب آنحضرت نے اپنا وظیفہ انجام دیا تو دوسری آیت نازل ہوئی جس میں دین مکمل ہونے اور نعمتیں تمام ہونے کی بشارت دی گئی۔
لہذا غدیر کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے غدیر کو کیوں اتنی اہمیت دی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لوگ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر اجماع کرتے اور آپ کے گرد جمع ہوتے تو معاشرہ انحراف کا شکار نہ ہوتا۔ حضرت علی اور دوسرے ائمہ علیہم السلام معاشرے کا زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لیتے جس کی وجہ سے منحرف فرقے پیدا نہ ہوتے اور معاشرے مشکلات میں گر نہ جاتا۔ آج معاشرے کو درپیش تمام مشکلات کی جڑ غدیر سے روگردانی ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے اس حوالے سے گفتگو کرنے کے لئے معروف محقق اور استاد علی کنگاوری کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہے۔ ان کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
استاد علی کنگاوری نے کہا کہ واقعہ غدیر کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ اس واقعے کے ذریعے انسانی زندگی میں اللہ کی دائمی حاکمیت اور انسان کی کامیابی کی ضمانت دی گئی۔ غدیر انسان اور معاشرے کی ہدایت کی الہی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی لئے غدیر سے روگردانی کی وجہ سے انسانی اپنی زندگی میں اچھی زندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس واقعے کو کئی زاویوں سے تجزیہ و تحلیل کرسکتے ہیں۔ مسلمان معاشروں اور اسلامی ممالک کو درپیش مشکلات کی بنیادی وجہ غدیر سے انحراف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثقافت اور فرھنگ کا دائرہ سیاست، معیشت اور حکومت کے تمام پہلوؤں تک پھیلا ہوا ہے اور کسی بھی واقعہ میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، جبکہ مذہب کو مجموعی طور پر ثقافت کے ستونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں مذہبی تقریبات بھی ثقافت کا حصہ ہیں۔ بنابراین اس موقع پر ثقافت اور اجتماعی زندگی کی حقیقت اور واقعیت کے بارے میں مختصر تبصرہ ضروری ہے جس کے تسلسل میں واقعہ غدیر کے کلی یا جزوی انکار میں اس کے کردار کو بھی بیان کیا جائے گا۔
قرآن کریم کے مطابق انسان کی اجتماعی زندگی باہمی اتحاد و اتفاق اور ہم زیستی پر مبنی ہے دوسری طرف ثقافت اور اجتماعی مسائل آپس میں مربوط اور ملے ہوئے ہیں جو انسانی کے طرز زندگی اور سرنوشت میں کردار ادا کرتے ہیں۔
ان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے والی ایک خصوصیت ان کا اجتماعی ہونا ہے مثلا آج کے ماڈرن دور میں اقتصاد ایک فردی معاملہ ہے اس کے برعکس ثقافت اور اجتماعی مسائل گروہی معاملات ہیں ایک اور خصوصیت جس میں یہ دونوں شریک ہیں وہ ان کا طویل المدت ہونا ہے یعنی ثقافت اور اجتماعی مسائل معاشرے میں جڑ پکڑنے کے لئے زیادہ وقت لیتے ہیں اور ان کا اچھا یا برا ہونا انسانی زندگی پر زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں۔
یہ موضوع اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ "تعلیمات، عقائد، رسوم اور ماضی بعید کی روایات" اور ساتھ ہی وہ مذہبی اور مذہبی موضوعات جو انبیاء علیہم السلام نے انسانوں کی اجتماعی زندگی میں بیان کیے ہیں، وہ تمام ثقافتی اور سماجی معاملات کا حصہ ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ جس چیز کے بارے میں جس چیز کا ذکر ملتا ہے وہ تاریخ میں ثقافت اور تہذیبی تصادم جو پرانی تہذیبوں اور دینی تعلیمات کے درمیان پائی جاتی تھی۔ قرآن مجید میں بار بار اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ آبائی رسومات اور عقائد دینی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان پر ایمان لانے کی راہ میں مانع ہوئی ہیں۔ بنابراین دین کو قبول کرنے والے رائج رسومات اور عقائد کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور یہی دین پر ایمان لانے کے بعد بھی اپنے اثرات دکھاسکتے ہیں۔
واقعہ غدیر سے انحراف نسلی اور ثقافتی رشتوں سے جڑا ہوا تھا
لہٰذا پیغمبر اسلام (ص) کی وفات کے بعد غدیر کا مسئلہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا اور عملی زندگی میں عربوں کے متعصبانہ قبائلی مفادات پر پابندی نے اس معاملے میں بھی اپنا اثر دکھایا۔ واقعہ غدیر سے انحراف نسلی اور ثقافتی رشتوں سے جڑا ہوا تھا جس کی طرف عمومی طور پر قرآن کریم میں بھی مختلف پہلوؤں سے اشارہ کرتا ہے۔ البتہ اس کا ایک سیاسی پہلو تھا۔
غدیر سے پہلے اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر انسانی سوال کرتا ہے کہ جن لوگوں نے آنحضرت کی زندگی میں غدیر کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا تھا، کیسے ان لوگوں نے آپ کے بعد اس سے سرپیچی کرلی اور اولین فرصت میں انحراف کیا؟
اس کی واحد وجہ لوگوں کی آباء و اجداد کے رسومات اور عقائد سے وابستگی تھی البتہ ہمارے عقیدے کے مطابق یہ بھی اللہ تعالی کا ایک امتحان تھا کہ ان کے دینی عقائد کس قدر مضبوط اور مستحکم ہیں۔
یہ موضوع دو حیثیتوں سے بحث کے قابل ہے پہلی یہ کہ انسان تین دشمنوں یعنی نفس، شیطان اور طاغوت سے روبرو ہونے کے دوران کیسی کارکردگی دکھاتا ہے۔ ان تینوں کا مقابلہ کرکے ہی انسان اجتماعی اور ثقافتی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے۔
دوسری یہ کہ غدیر خم کے واقعے کے بارے میں بھی انہی ثقافتی اور اجتماعی خصلتوں نے اپنا اثر دکھایا اور لوگوں نے زمانہ جاہلیت کی عادات و رسومات کے مطابق چلنا شروع کیا۔ اسلام سے پہلے لوگوں کے درمیان قبائلی امتیازات، قومی فخر ومباہات اور تعصب و قوم پرستی کے شدید جذبات پائے جاتے تھے جن کو قرآن کریم نے متعدد مرتبہ مذمت کرکے مسترد کردیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوری زندگی ان غلط آداب و رسومات کے خلاف جہاد کیا ہے۔ غدیر کا واقعہ بھی ان غلط رسومات کی نذر ہوگیا اور کفار و مشرکین کے غلط عقائد نے غدیر کے واقعے میں دوبارہ سراٹھایا۔
عربوں میں قوم اور قبیلے کی بنیاد پر حکومت کا تصور تھا اسی لئے بعض قبائل کے سربراہان نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد غدیر سے انحراف کیا اور لوگوں کے اندر جاہلیت کے عقائد کو دوبارہ زندہ کیا۔ یہ موضوع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل منافی اور طاغوت کے زمانے کے رسومات کے عین مطابق تھا۔
حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور ولایت کے بارے میں بھی قومی تعصب دینی تعلیمات پر غالب آگیا
لوگوں دینی احکام اور تعلیمات کے خلاف قبائلی اور قومی رسومات کو ترجٰیح دی اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور ولایت کے بارے میں بھی قومی تعصب دینی تعلیمات پر غالب آگیا۔
واضح رہے کہ آج کے دور میں خدائی اور ولائی سیاست جس کا تصور امام خمینی رح کی پیش کردہ ولایت فقیہ میں پایا جاتا ہے، اس میں بھی غدیر کا عنصر پایا جاتا ہے اور آج کا معاشرہ ان حالات سے روبرو ہے۔ دوسرے الفاظ آج کے معاشرے میں جو بھی گروہ یا فرد رہبر معظم انقلاب کے افکار اور تدابیر سے الگ ہو یا حکومت اور سیاسی معاملات میں غیر الہی نظریات مثلا ہیومنزم اور لیبرالیزم کا عقیدہ رکھتا ہو، یہ بھی غدیر خم کی اس ولائی حاکمیت کے خلاف بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔