مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ سویڈن میں قرآن کریم کو آگ لگا کر ایک مرتبہ پھر ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا گیا۔ اکیسویں صدی میں خود کو انسانی حقوق اور جمہوریت کے چمپئین قرار دینے والے کسی مغربی ملک میں یہ واقعہ پیش آنا انہتائی معنی خیز ہے۔
بے حرمتی کے اس شرمناک عمل کے لئے عید قربان کا دن اتنخاب کرنا اپنی جگہ سوچنے کا مقام ہے۔ سویڈش پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود اس واقعے کو روکنے کی نہ فقط کوشش نہیں کی بلکہ گستاخ شخص کی سیکورٹی کو یقینی بنایا۔
عراقی نژاد 37 سالہ سویڈش شہری سلوان مومیکا نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ قرآن کے صفحات کو پھاڑا اور دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مرکزی چوراہے پر قرآن مجید کے صفحات کو آگ لگادی۔ شہر کی بڑی مسجد کے سامنے ہوانے والے واقعے کے دوران 200 کے قریب لوگ بھی موقع پر موجود تھے جن میں سے بعض نے گستاخ مومیکا کو روکنے کی بھی کوشش کی۔
سویڈش پولیس کی دوغلی پالیسی
سویڈن کی پولیس نے واقعے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا لیکن عدالت نے آزادی اظہار بیان اور جمہوریت کے نام پر اجازت صادر کی اور پولیس کو گستاخ شخص کے لئے سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر پولیس نے دورخی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے ملک کی خارجہ پالیسی پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن آگ لگانے سے پیش آنے والے امنیتی مسائل اتنے بڑے نہیں کہ اجازت نامہ منسوخ کیا جائے۔
سویڈن کے وزیراعظم اولف کریسٹوسون نے اس حوالے سے کہا کہ احتجاج اور اعتراضات کے حوالے سے پولیس کے سارے اختیارات ہیں۔ انہوں نے سارا معاملہ پولیس پر چھوڑ کر اس واقعے سے اپنا دامن چھڑانے کی کوشش اور گستاخ کی کھل کر حمایت بھی نہیں کی۔ انہوں نے واقعے کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر قانونی کام کرنا مناسب بھی نہیں ہے۔ معاشرے کی امنیت کا تحفظ ضروری ہے۔ یاد رہے کہ سویڈن میں بڑی تعداد میں مسلمان رہتے ہیں۔ ایک کروڑ آبادی میں سے چھے لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔
مغربی ممالک کے تاثرات
امریکی وزارت خارجہ نے قرآن مجید کو آگ لگانے کا واقعہ توہین آمیز اور تکلیف دہ قرار دیا ہے لیکن مسلمانوں پر اس کے اثرات اور عالمی سطح پر اس کے ردعمل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
سویڈن یورپی یونین کا رکن ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں خود کو سب سے زیادہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا داعی قرار دیتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یورپی یونین کے رہنماوں کی طرف سے اس توہین آمیز واقعے کی مناسبت سے کوئی واضح ردعمل دیکھا نہیں گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یورپی رہنما نہ صرف مسلمانوں کے اچھے جذبات نہیں رکھتے ہیں بلکہ پس پردہ اس توہین آمیر اقدام کے حامی ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کا واقعے کے حوالے سے کوریج بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ بہت سارے اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے اداروں کی جانب سے کوئی کوریج نہیں دی گئی اور اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ جن اخبارات اور ٹی چینلوں نے تذکرہ کیا انہوں نے اصل واقعے سے زیادہ گستاخ عراقی نژاد شہری کی ذاتی زندگی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
کیا نیٹو کا بھی کوئی کردار ہے؟
انقرہ کے کسی اخبار نے ہیڈلائن میں یہ جملہ لکھا تھا کہ نیٹو میں شامل ہونے کا ویزا ہاتھ سے نکل گیا۔ یاد رہے کہ یہ جملہ ایسے اخبار نے استعمال کیا ہے جو صدر اردگان کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ اخبار واضح عبارت میں لکھا ہے کہ ترکی کو اب نیٹو میں سویڈن کو رکنیت دینے کے مجوزہ منصوبے کی کھل کر مخالفت کرنا چاہئے تاکہ اس توہین آمیز واقعے کو جواب دیا جاسکے۔
ترکیہ کے سابق وزیراعظم احمد داود اوغلو نے سویڈن کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم سے اپنے ناپاک ہاتھوں کو اٹھالو۔ عالم اسلام کے لئے تمہارا یہ توہین آمیز رویہ قابل قبول نہیں ہے۔ ان کے علاوہ ترکی کی پارلیمنٹ کے سربراہ سمیت دیگر سیاسی رہنماوں نے بھی واقعے پر شدید ردعمل دکھایا ہے۔
ابھی تک واضح نہیں ہے کہ لتھوینیا میں ہونے والے ہونے نیٹو کے اجلاس کے دوران ترک صدر اردوگان سویڈن کے بارے میں کیا موقف اختیار کریں گے۔ البتہ ترک ذرائع ابلاغ عندیہ دے رہے ہیں کہ امریکی صدر جوبائیڈن اگر ترکی کو ایف 16 طیارے فروخت کرنے سے اتفاق کرے تو ترکی سویڈن کی نیٹو میں شمولیت سے اختلاف نہیں کرے گا۔
کیا دوسری آسمانی کتابوں کو جلانے کی بھی اجازت دی جائے گی؟
امریکی اور یورپی رہنما مسلمانوں کے عقائد اور جذبات کو مجروح کرنے کے بعد خاموشی اختیار کررہے ہیں۔ ان ممالک میں یہودی اور عیسائی مقدس کتابوں کو جلانے کا آج تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا یعنی اس حوالے سے یورپی ممالک دوغلی پالیسی کا شکار ہیں۔ جب اسلامی مقدسات کی توہین کی بات آئے تو آزادی اظہار بیان اور انسانی حقوق کے نام پر اس کی حمایت کی جاتی ہے لیکن دوسرے ادیان اور مذاہب کی مقدسات کی توہین کرنا ان ممالک کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں اور ان کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔
یہی مغربی ممالک کی دوغلی پالیسی ہے۔