مہر خبررساں ایجنسی: غاصب صہیونی فوج کے ہاتھوں 2 سالہ فلسطینی بچہ "محمد ہیثم التمیمی" کی شہادت نے ایک بار پھر، اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا کہ غاصب صہیونی حکومت معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کو نشانہ بنا کر فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا چاہتی ہے۔
یاد رہے کہ دو سالہ محمد ہیثم التمیمی چند روز قبل، مغربی کنارے میں رام اللہ شہر کے شمال میں واقع گاؤں نبی صالح پر غاصب صہیونی افواج کے غیر انسانی حملوں میں زخمی ہوا تھا اور انہیں ان کی جسمانی حالت زیادہ خراب ہونے اور سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے رام اللہ کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن بالآخر التمیمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا اور ہمیشہ طفل کش کے منحوس چہرے کو ذلیل و رسواء کرتا رہے گا۔
فلسطینی بچے کی اس المناک شہادت پر عرب سوشل ایکٹوسٹ نے شدید غم و غصّے کا مظاہرہ کیا ہے اور دنیا کی اس بچے کی شہادت خاموشی کو سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔
ایک عرب صارف نے 2 سالہ تمیمی کی شہادت پر لکھا کہ 2000ء سے اب تک غاصب صہیونی فوج کے ہاتھوں 2 ہزار 270 فلسطینی بچے شہید ہوچکے ہیں اور اس وقت تقریباً 200 فلسطینی بچے صہیونی حکومت کی جیلوں میں قید ہیں۔
نیز عرب سوشل ایکٹوسٹ نے رہبرِ انقلابِ اسلامی کے عربی زبان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی پوسٹ کو دوبارہ شائع کیا کہ غاصب صہیونی حکومت کے مسئلے کا حل، اسے تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
ایک اور سوشل ایکٹوسٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس خوبصورت فلسطینی بچے کے بارے میں ہمیں ضرور پوچھنا چاہیئے کہ طفل کش قابضین کے ہاتھوں اس بچے کی شہادت پر مذمت کیوں نہیں کی گئی؟ اور فلسطینیوں سے تعزیت کیوں نہیں کی گئی۔؟ کیونکہ وہ ایک مسلمان اور عربی بچہ تھا اس لئے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن اگر کوئی سفید فام عیسائی بچہ زخمی یا مارا جاتا تو پوری دنیا اس کے حق میں بولتی۔
عائشہ نامی ایک سوشل ایکٹوسٹ نے لکھا کہ دہشت گردی کا مطلب، غاصب صہیونی طفل کش کی گولی سے 2 سالہ فلسطینی بچے کو قتل کرنا اور اس مسئلے کو نادیدہ لینا ہے۔
عربی زبان کی سوشل ایکٹوسٹ آمینہ نے اس حوالے سے لکھا کہ بچوں کو مارنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے بعد اس کی صفائی پیش کی جائے یا معافی مانگی جائے۔ غاصب صہیونی فوج نے ہمیشہ کی طرح اعلان کیا کہ التمیمی نبی صالح کے گاؤں پر حملے کے دوران غلطی سے مارا گیا۔ تو ان ہزاروں فلسطینی بچوں کا کیا ہوگا جو گزشتہ برسوں کے دوران قابضین کے ہاتھوں مارے گئے؟؟۔
محمود یوسف نے ایک پوسٹ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ظالموں نے ڈھائی سالہ محمد ہیثم التمیمی کو سر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ غاصب صہیونی حکومت کے جرائم کب تک بغیر کسی سزا کے جاری رہیں گے؟۔
جنات عبداللہ نے نیز اس مظلوم فلسطینی بچے کی شہادت پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ التمیمی، طفل کش صہیونی حکومت کے ہاتھوں رواں سال شہید ہونے والا 28 واں بچہ ہے۔ جب تل ابیب کا ہدف نسل کشی ہے تو ان کیلئے بے گناہ خواتین اور بچے بہترین ہدف ہیں۔
غیاث نعیم سعد نے بھی اس حوالے سے لکھا کہ فلسطین آزاد نہیں ہوگا، مزاحمت کے تمام دعویداروں کو رسواء کرنے والے مؤمنین اور فلسطینی بچوں کے پتھروں کے سوا!!