مہر خبررساں ایجنسی نے بھارتی میڈیا کے حوالے سے نقل کیاہےکہ سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ کرناٹک کی پری یونیورسٹی کالجوں میں حجاب پہن کر سالانہ امتحان میں شامل ہونے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنے والی طالبات کے ایک گروپ کی درخواست پر سماعت کی جائے گی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس۔ نرسمہا کی بنچ نے عرضی کی سماعت سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ طالبات کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔
درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ شادان فراست نے دعویٰ کیا کہ انہیں مارچ سے شروع ہونے والے سالانہ امتحانات میں شرکت کرنا ہے۔ طالبات حجاب پہن کر اس امتحان میں شرکت کی اجازت چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبات کو پہلے ہی ایک سال کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگر کوئی راحت نہیں دی جاتی ہے تو ان کا مزید ایک سال ضائع ہو جائے گا۔
وکیل شادان فراست نے بنچ کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حجاب تنازعہ کی وجہ سے یہ طالبات پہلے ہی اپنا ٹرانسفر پرائیویٹ کالجوں میں کرالیا تھا، لیکن انہیں امتحانات میں شرکت کے لیے سرکاری کالجوں میں جانا پڑتا ہے۔ وکیل نے اس معاملے میں عبوری راحت کی استدعا کی ہے۔ اسی طرح کی درخواست 23 جنوری کو بھی طالبات کی جانب سے کی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے 13 اکتوبر 2022 کو پری یونیورسٹی کالجوں میں حجاب پہننے پر کرناٹک حکومت کی طرف سے پابندی کی قانونی حیثیت پر الگ الگ فیصلہ دیا تھا۔ اس معاملے کی سماعت ججوں کی بنچ کے سامنے کی جانی تھی۔ عدالت عظمیٰ کی جسٹس ہیمنت گپتا (ریٹائرڈ) اور جسٹس سدھانشو دھولیا پر مشتمل بنچ نے کہا تھا کہ چونکہ اختلاف رائے ہے، اس لیے اس معاملے کو غور کے لیے ایک بڑی بنچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا کو بھیجا جائے گا۔
جسٹس گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے 15 مارچ 2022 کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا، جس میں ایک کمیونٹی کو اپنی مذہبی علامتیں پہننے کی اجازت دینا سیکولرازم کے خلاف مانا گیا تھا۔ جسٹس گپتا کے برعکس، جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلے میں اپیل کی اجازت دینے اور 5 فروری 2022 کو ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے سے اتفاق نہیں کیا تھا، جس میں حجاب پہن کر کالجوں میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔