معروف عراقی تجزیہ کار نجاح محمد علی نے سیکورٹی کے معاملے کو خلیج فارس کی پٹی کے عرب ملکوں اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات کا اہم اور اصلی ترین حصہ قرار دیا اور کہا کہ صہیونی خطے میں جاسوسی کے اڈے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی - انٹرنیشنل ڈیسک: معروف عراقی تجزیہ کار اور سیاسی ایکٹویسٹ نجاح محمد علی نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے صہیونی حکومت کے سربراہ کے دو عرب ملکوں یعنی بحرین اور متحدہ عرب امارات کے دورے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ دورہ ان دونوں ملکوں اور غاصب صہیونی حکومت کے درمیان 2020 میں شروع ہونے والے تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب مزید آگے بڑھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دوروں کے نتائج سے کوشش کی جارہی ہے کہ صہیونی حکومت کے جعلی اور غاصبانہ وجود کو خطے کی اقوام کے درمیان ایک عام سی بات کے طور پر ظاہر کیا جاسکے جبکہ خطے کی اقوام اس کے غاصب اور قابض صہیونیوں کے سخت خلاف ہیں اور کسی بھی نوعیت کے تعلقات کی بحالی کو غلط سمجھتے ہیں۔ 

انہوں نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے عرب دنیا کے عوام کی شدید مخالفت پر زور دیا جس کا 2022 فیفا ورلڈ کپ مقابلوں کے دوران واضح اور مکمل طور پر مظاہرہ دیکھا گیا۔ نجاح نے مزید کہا کہ اس حقیقت کو صہیونی صحافیوں کی رپورٹوں میں بخوبی دیکھا گیا کہ عوام انہیں قابض آباد کاروں کے طور پر نظروں سے دیکھتے ہیں اور قابض افواج کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے سخت مخالف ہیں، البتہ یہ مسئلہ صرف عرب اور اسلامی ملکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ صہیونیوں کے متعلق منفی اور نفرت پر مبنی نقطہ نظر ایک عالمی مسئلہ ہے، یہاں تک کہ امریکہ اور عیسائیوں میں بھی اس غاصب حکومت کی حمایت کے تناسب میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ﴿AIPAC﴾ کی جانب سے قائم کئے گئے واشنگٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جو ایک ایسا ادارہ سمجھا جاتا ہے جس کا مقصد خطے میں صہیونی حکومت کے چہرے کو بہتر بنانا ہے، نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ ابراہام معاہدے صرف حکومتوں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں اور عوام درمیان انہیں کوئی اہمیت یا مقام حاصل نہیں ہے۔

سعودی عرب، تعلقات کی بحالی کی راہ پر گامزن

نجاح محمد علی نے صہیونی حکومت کے سربراہ اسحاق ہرزوگ کے خطے کے دورے سے جڑی پیش رفت کے حوالے سے مزید کہا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ بحرین کے اقدامات ہمیشہ ان پالیسیوں اور اقدامات کی نشاندہی کرتے ہیں جو سعودی عرب مستقبل میں اختیار کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صیہونی حکومت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات معمول پر آچکے ہیں تاہم وہ اس معاملے برملا کرنے سے خوفزدہ ہیں اور ان کے لئے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو عوامی سطح پر برملا کرنا مکن نہیں ہے۔ 

دوسری جانب حالیہ مہینوں میں سعودی معاشرے کی سطح پر تعلقات کو معمول پر لانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور صیہونی شخصیات، صحافی اور میڈیا نمائندے آسانی سے مدینہ اور مکہ جیسے شہروں میں آ گئے ہیں۔ یہ واقعات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی عرب تعلقات کی بحالی اور معمول پر لانے کے معاملے میں سنجیدگی سے داخل ہو چکا ہے تاہم اسے عوامی سطح پر برملا کرنے سے خوفزدہ ہے۔

تعلقات کی بحالی اور معمول پر لانے کے اثرات و نتائج

معروف عراقی تجزیہ کار نے غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور عرب ملکوں کے رابطے معمول پر لانے کے اثرات اور نتائج کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ بحرین اور خلیج فارس کی پٹی کے دیگر عرب ممالک جیسے ملک جب غاصب صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں داخل ہوجائیں تو ان کے پاس صہیونیوں کو پیش کرنے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اپنی سرزمینوں کو ایران اور مقاومت کے محور ﴿عالمی استکبار کے خلاف برسرپیکار محور﴾ کے خلاف سرگرم موساد اور دیگر اینٹلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کردیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سائبر اور میڈیا وار کی کوششوں اور صہیونی حکومت کی طرف سے بڑھکائے گئے فسادات اور خلفشار کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کے سلسلے میں ہوتی ہیں۔ صہیونی حکومت کے اڈے اربیل اور خلیج فارس کے بعض دوسرے عرب ممالک میں ہیں اور وہ ان اڈوں کو ایران کے اندر افراتفری اور انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ایرانی حکام کو اس بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ صہیونی حکومت کی جانب سے خلیج فارس کی پٹی کے عرب ملکوں میں اڈوں کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایران کے اندر کشیدگی پیدا کی جائے اور موساد کے لئے جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے فریب خوردہ ان کے جال میں پھنس جانے والے نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے۔

نجاح محمد علی نے غاصب صہیونی ریاست کے داخلی بحرانوں کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ صہیونی رجیم کا کابینہ بنانے کا بحران بدستور جاری ہے اور صہیونی حکام اس کوشش میں ہیں کہ باہر سے ایسی کابینہ کی تائید حاصل کرلیں کہ جو صہیونی قابض آبادکاروں کے مفادات کو ضمانت فراہم کرسکے۔ 

لیبلز